خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

اس پر مجاور گر جنے  بر سنے لگا ۔فیاض با ربار گھڑی کی طرف د یکھتا جا رہا تھا ۔عمران کو گئے  ہو ئے پندرہ منٹ ہو چکے تھے۔وہ مجاور کو باتوں میں اُ لجھا ئے رہا ۔اچانک ایک عجیب  قسم کی آواز سنا ئی دی ۔مجا ور اُ چھل کر مڑا ۔اس کی پشت کی طرف کی دیوا ر میں ایک بڑا سا خلا ء نظر آرہا تھا۔

فیاض بو کھلا کر کھڑا ہو گیا ۔وہ سو چ رہا تھا کہ یک بیک دیوار کو کیا ہو گیا۔وہ اس سے پہلے بھی کئی بار اس کمرے میں آچکا تھا لیکن اُسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آیا تھاکہ یہاں کوئی چوردروازہ بھی ہو سکتا ہے ۔دفعتاًاور مجاور چیخ  مار کر  اس دروازے  میں گھستا چلا  گیا ۔ فیاض بری طرح  بو کھلا گیا تھا ۔اُس نے جیب سے ٹارچ نکا لی  اور پھر وہ بھی اُسی دَروازے میں دا خل ہو گیا ۔

یہاں چا روں طرف اند ھیرا تھا ۔شا ئد وہ کسی تہہ خا نے میں چل رہا تھا ۔کچھ  دور چلنے کے بعد سیڑ ھیاں  نظر آئیں ۔یہاں

قبر ستان کی سی خا موشی تھی۔فیاض سیڑھیوں پر چڑنے لگا اور جب  وہ اُوپر  پہنچا تو اس نے خو د کو شہید مر دکی قبرسے برآمد ہوتے  پایا  جس کا تعویذ کسی صندوق کے ڈ ھکن کی طرح سیدھا  اٹھا  ہو اتھا۔

ٹارچ کی روشنی کا دائرہ صحن میں چاروں طرف گردش کرتا رہا۔ پھر فیاض نے مجاورکو وارداتوں والےکمرے سے نکلتے دیکھا۔

’’تم لوگوں نے مجھے برباد کردیا۔‘‘ وہ فیا ض کو دیکھ کر چیخا۔ ’’آؤ اپنے کرتوت دیکھو‘‘ ۔وہ پھر کمرے میں گھس گیا۔ فیاض تیزی سے اس کی طرف جھپٹا۔

’’ٹارچ  کی روشنی  دیوار پر پڑی جہاں کا بہت   سارا  پلا سڑ اُد ھڑاہو اتھا اور اسی جگہ چا نچ  پا نچ  انچ کے فا صلے  پر تین  بڑی چھریاں نصب تھیں ۔فیاض آگے  بڑھا  ۔اُدھڑے ہوئے پلاسڑ کے پیچھے  ایک بڑا سا خا نہ تھا اور ان چھریوں کے دوسرے سرے اسی میں غائب  ہو گئے تھے ۔ان   چھریوں کے علاوہ  اس خا نے میں اور کچھ نہیں تھا۔

’’مجاور قہر آلود نظروں سے فیاض کو گھو ررہا تھا ۔

’’یہ سب کیا ہے ‘‘۔فیاض نے مجا ور کو گھورتے ہو ئے کہا ۔

مجاورنے اس طرح کھنکار کر گلا صا ف کیا جیسے کچھ کہنا چا ہتا ہو  لیکن  خلاف تو قع اس نے فیاض  کے سینے پر ایک زور دارٹکر ماری اور اچھل کر بھا گا ۔فیاض چا روں  خا نے چت گرا۔ سنبھلنے سے پہلے  اُس کا دا ہنا ہاتھ  ہولسڑ سے ریوا لور نکال چکا تھا…مگر بیکار۔مجاور نے قبر میں چھلا نگ  لگا دی تھی۔

فیاض اُٹھ کر قبر کی طرف دوڑا لیکن مجا ور کے کمرے میں پہنچ کربھی اُس کا نشان نہ ملا  ۔فیاض عمارت کے باہر نکل آیا ۔ڈیوٹی کا  نسٹیبل بد ستور اپنی جگہوں پر مو جود تھے ۔انھوں نے بھی  کسی بھا گتے ہوئے آدمی کے متعلق لا علمی ظاہر کی ۔ان کا خیال تھا کہ عمارت سے کوئی باہر نکلا ہی نہیں ۔

اچا نک اُسے عمران کا خیال آیا   ۔آخر وہ کہاں گیا تھا۔کہیں یہ اُسی کی حرکت نہ ہو ۔اس خفیہ خا نے میں کیا چیز تھی۔اب سارے معا ملات فیاض کے ذ ہن میں صاف  ہو گئے تھے  ۔لاش کا  راز  ‘تین زخم  ۔جن جا در میانی فا صلہ  پا نچ پا  نچ انچ  تھاٰ…دفعتاًاس کے  شا نے  پر کسی نے ہاتھ  ر کھ دیا ۔ فیاض چو نک کر مُڑا ۔عمران کھڑا بُری طرح منہ  بسور رہا تھا۔

’’تو یہ تم تھے‘‘۔فیاض نے اُسے نیچے اُوپر تک گھو رتا ہو ابولا ۔

’’میں تھا نہیں  بلکہ ہوں ۔تو قع ہے کہ ابھی دو چار دن زندہ رہوں گا‘‘۔

’’وہاں سے کیا نکا لا  تم نے‘‘۔

’’چوٹ ہو  گئی پیا رے  فر ہاد ‘‘۔عمران بھرّائی ہوئی آواز میں بولا ۔’’وہ مجھ سے پہلے  ہی ہاتھ صاف کر گئے ۔میں نے تو بعد میں ذرا  اس خفیہ خانے کے  میکنزم پر غور کرنا  چا ہا  تھا  کہ  ایک کھٹکے کو ہا تھ  لگا تے  ہی قبر  تڑخ  گئی‘‘۔

’’لیکن وہاں تھا کیا؟‘‘

’’وہ بقیہ  کا غذات جو ا س چرمی ہینڈ بیگ میں نہیں تھے۔‘‘

’’کیا  ! اَرے اُو احمق ‘ پہلے  ہی کیوں نہیں بتا یا  تھا ‘‘ فیاض ا پنی پیشا نی پر ہا تھ  مار کر بولا۔’’لیکن وہ اندر گھسے کس طرح ؟‘‘

’’آؤ دکھا ؤں ‘‘۔عمران ایک طرف بڑھتا  ہو ابولا  ۔وہ فیاض  کو عمارت کے مغر بی  گو  شے  کی  سمت لایا۔یہاں  دیوار سے ملی ہو ئی قدِآدم جھا ڑیاں تھیں ۔عمران نے جھا ڑیاں  ہٹا کر ٹا رچ روشن  کی اور فیاض کا منہ  حیرت سے کھلا  کا کھلا رہ گیا ۔دیوار میں اتنی بڑی  نقب تھی کہ ایک آدمی  بیٹھ کر با ٓ  سا نی  اُس سے گز ر سکتا تھا۔

’’یہ تو بہت بُرا ہو ا‘‘۔فیاض بڑ  بڑایا ۔

’’اور  وہ پہنچا ہو ا فقیر  کہاں ہے  ؟‘‘ عمران نے پو چھا۔

’’وہ بھی  نکل گیا ۔لیکن تم کس  طرح اندر پہنچے‘‘۔

’’اسی را ستے  سے ۔آج ہی مجھے ان جھا ڑیوں کا خیال آیا تھا‘‘۔

’’اب کیا کرو  گے ‘‘۔فیاض نے  بے  بسی سے کہا۔

’’ بقیہ کا غذات بھی وا پس  کر دوں گا ۔بھلا  آ دھے  کا غذات  کس کام کے ۔جس کے پا س بھی رہیں پو رے  رہیں ۔اس کے بعد میں باقی  زندگی گزارنے  کےلیے  قبر  اپنے نام الاٹ کر الوں گا‘‘۔

عمرانکے کمرے میں فون کی  گھنٹی بڑی دیر سے  بج رہی  تھی۔وہ قر یب ہی بیٹھا  ہو اکو ئی  کتاب  پڑھ رہا تھا  ۔اُس نے گھنٹی کی طرف دھیان  تک نہ دیا  ۔پھر آخر جب  گھنٹی  بجتی ہی چلی گئی تو کتا ب میز پر  پٹخ کر ا پنے نوکر  سلیماکو پکا  رنے لگا ۔

’’جی سر کار ۔‘‘ سلیمان کمرے میں داخل ہو کر بولا ۔

’’ابے یہ دیکھ ،کون اُ لّو کا پٹھا  گھنٹی  بجا رہا ہے ۔‘‘

’’ سر کا ر فون ۔‘‘

’’فون ‘‘۔ عمران چو نک کر فون کی طرف دیکھتا ہو ابولا ۔‘‘ اُسے اُ ٹھا کر سڑک پر  پھینک دے۔‘‘

سلیمان نے ریسیوراٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔

’’ہیلو !‘‘ عمران ماؤ تھ پیس میں بو لا  ۔’’ہاں …ہاں  عمران نہیں تو کیا  کُتّا بھو  نک رہا ہے ‘‘۔

’’تم کل رات ر یس کورس کے قر یب کیوں نہیں ملے‘‘۔ دوسری طرف سے آواز آئی ۔

’’بھا گ جاؤ گد ھے  ‘‘۔ عمران نے ما ؤ تھ  پیس پررکھے بغیر سلیمان سے کہا ۔

’’کیاکہا ‘‘۔دو سری طرف سے غرا ہٹ  سنا ئی دی ۔

’’اُوہ  !و ہ تو  میں نے سلیمان سے کہا  تھا …میر ا نو کر ہے …ہاں تو آپ بتا سکتے  ہیں کہ  میں پچھلی رات کو ریس  کو رس کیوں نہیں گیا ‘‘

’’میں تم سے پو چھا رہا ہو ں‘‘۔

’’تو سنو میرے  دو ست !‘‘ عمران   نے کہا  ۔’’ میں نے اتنی محنت  مفت میں نہیں کی …ہینڈ بیگ کی قیمت دس ہزار رو پے  لگ  چکی ہے ۔اگر تم کچھ بڑھو تو میں سودا کر نے کو تیار ہوں ‘‘۔

’’شا مت  آ گئی ہے  تمہا ری ‘‘۔

’’ہاں ! ملی تھی ! مجھے  پسندآئی ‘‘۔عمران نے آنکھ مار کر کہا ۔

’’آج را ت اور انتظار کیا جا ئے گا ۔اس کے  بعد کل کسی وقت تمہاری لاش شہر  کے کسی گڑ میں بہہ رہی ہو گی‘‘۔

’’اَرے باپ !تم نے اچھا کیا بتادیا ۔اب میں کفن سا تھ  لیے بغیر  گھر سے با ہر نہ نکلو  ں گا ‘‘۔

’’میں پھر سمجھا تا  ہوں ‘‘۔دوسری طرف سے آوا ز آئی ۔

’’سمجھ گیا ‘‘۔عمران نےبڑی سعادت   مندی سے کہا اور سلسلہ  منقطع کر دیا ۔

اُس  نے پھر کتا ب اٹھالی اوراس طرح مشغول  ہو گیا جیسے  کوئی بات ہی نہ ہو ۔ تھوڑی د یر بعد گھنٹی پھر بجی ۔عمران نے ریسیورا ُٹھا لیا  اور جھلّا ئی ہو ئی آواز میں  بولا  ۔’’اب یہ ٹیلیفون  کسی یتیم خا نےکو  پر  یز نٹ کر دوں گا ۔سمجھے۔ میں بہت ہی مقبول آدمی  ہوں  …کیا میں نے  مقبول کہا  تھا ۔مقبول نہیں مشغول آدمی ہوں ‘‘۔

’’تم  نے  ابھی کسی  رقم کی بات  کی  تھی‘‘۔دوسری طرف سے آواز آئی ۔

’’قلم نہیں فا ؤنٹیں پن‘‘۔عمران نے کہا۔

’’وقت مت بربادکرو ‘‘۔دوسری طرف  سے جھلاّ ئی ہو ئی آواز آئی ۔’’ہم بھی  اس کی قیمت  دس ہزار لگا تے ہیں ‘‘۔

’’و یری گڈ ‘‘۔ عمران بولا  ۔چلو تو یہ طے رہا  ۔بیگ تمہیں مل جا ئے  گا‘‘۔

’’آج رات کو ‘‘۔

’’کیا تم مجھے اچھی طرح جا نتے ہو ‘‘۔عمران نے پو چھا ۔

’’اُسی  طرح جیسے پہلی انگلی دوسری انگلی کو  جا نتی ہے‘‘۔

’’گڈ‘‘۔عمران  چٹکی بجا کر بولا ۔’’تو تم یہ بھی جا نتے ہو  گے کہ میں  ازالی احمق  ہوں‘‘۔

’’تم؟‘‘

’’ہاں میں ۔ریس کورس بڑی سنسان جگہ ہے  ۔اگر بیگ لے کر تم نے مجھے  ٹھا  ئیں کر دیا تو میں کس  سے فر یاد کروں گا۔‘‘

’’ایسا نہیں ہو گا۔‘‘دوسری  طرف سے آواز آئی ۔

’’میں بتاؤں ۔تم اپنے کسی آدمی کو رو پے دے کر ٹپ ٹاپ نائٹ کلب بھیج دو  ۔میں مدھو  بالا  کی جوانی  کی قسم کھا کر کہتا ہو کہ بیگ وا پس کر دوں گا ۔‘‘

’’اگر کو ئی   شرارت ہو ئی تو۔‘‘

’’مجھے مر غا بنا دینا۔‘‘

’’اچھا ! لیکن یہ یادر ہے کہ تم وہاں بھی ریوالور کی نال پر رہوگے۔‘‘

’’فکر نہ کرو ۔میں  نے آج تک ریوالور کی شکل ہی نہیں د یکھی ۔‘‘

عمران نے ریسیور اسٹینڈ پر رکھ دیا اور جیب میں چیو نگرم   کا  پیکٹ تلا ش کر نے لگا۔