خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’آپ چلئے تو !‘‘ بوڑھے نے مسکرا کر کہا ۔’’مجھےاُس گدھے کی حرکت پر افسوس ہے ۔‘‘

عمران کھڑا ہو گیا  لیکن اب ریوالور کی نا ل اس کے پہلو میں  چبھ رہی تھی ۔وہ دونوں باہر آئے ۔ پھر جیسے ہی وہ پارک میں پہنچے بو ڑھے کے دو نوں سا تھی بھی پہنچ  گئے ۔

’’کاغذات کہاں ہے ؟‘‘  بو ڑھے نے عمران  کا کا لر پکڑ کر  جھنجھوڑ تے ہو ئے کہا ۔

پا رک میں سنا ٹا  تھا  ۔دفعتاً عمران  نے بو ڑھے  کا با یاں ہاتھ  پکڑ  کر ٹھو ڑی کے نیچے  ایک زور دار گھو نسہ رسید کیا ۔بوڑھے کا ریو الور عمران کے ہاتھ میں تھا  اور بوڑھا  لڑ کھڑا کر گرنے ہی وا لا تھا کہ اُس کےسا تھیوں نے اُ سے سنبھا ل لیا ۔

’’میں کہتا ہوں وہ دس ہزار کہاں ہیں ۔’’عمران نے چیخ کر کہا ۔

اچانک مہندی کی با ڑھ کے پیچھے سے آٹھ  دس آدمی اُ چھل  کر ان  تینوں پر آپڑے اور پھر ایک خطر ناک جد و جہد کا آغاز ہو گیا  ۔وہ تینوں بڑی بے جگری سے لڑ رہے تھے۔

’’سوپر  فیاض ۔‘‘عمران نے چیخ  کر کہا    ۔’’داڑھی والا۔‘‘

لیکن داڑھی والا اُچھل کر بھا گا ۔وہ مہندی کی با ڑھ پھلا نگنے ہی والا تھا  کہ عمران  کے ریوالور سے شعلہ  نکلا ۔ گولی  ٹانگ میں  لگی اور بو ڑھا مہندی کی با ڑھ میں پھنس کر رہ گیا ۔

’’اَرے باپ رے  باپ ۔‘‘ عمرا ن ریوالور پھینک کر اپنا  منہ پیٹنے لگا۔

وہ دونوں پکڑے   جا چکے تھے۔فیاض زخمی  بوڑھے کی طرف جھپٹا جو اَب بھی بھا گ نکلنے  کے لیے  جدوجہد کر رہا تھا ۔فیاض نے ٹا نگ پکڑ کر اُسے  مہندی کی با ڑھ  سے گھسیٹ لیا۔

’’یہ کون؟‘‘فیاض نے اُس کے چہرے  پر ٹارچ کی رو شنی ڈالی ۔فا ئر  کی آواز سن کر  پارک میں بہت سے لوگ اکٹھا  ہو گئے تھے ۔

بوڑھا بے ہوش نہیں ہو اتھا ۔وہ کسی زخمی سا نپ  کی طرح بل کھا رہا تھا  ۔ عمران  نے جھک کر اُس کی مصنوعی دا ڑھی نوچ لی۔

’’ہائیں !‘‘فیاض تقریباً چیخ پڑا ۔’’ ۔۔۔۔سر جہا نگیر‘‘۔

سر جہا نگیر نے پھر  اُٹھ کر  بھاگنے  کی کو شش کی لیکن  عمران کی ٹھو کر نے  اُسے با ز رکھا۔

’’ہاں ‘ سر جہا نگیر !‘‘ عمران  بڑبڑایا  ۔’’ ایک غیر ملک کا جا سوس ۔قوم فروش ۔ غدّار۔‘‘

دوسرےدن  کیپٹن فیاض عمران کے کمرے  میں  بیٹھا اُسے تحیر آمیز نظروں سے گھوررہا تھا  اور عمران بڑی سنجیدگی  سے کہہ رہا تھا  ۔’’مجھے خو شی  ہے کہ ایک بہت بڑا غدار  او روطن فروش میرے ہا تھوں اپنے انجام کو پہنچا ۔بھلا کون سوچ سکتا تھا  کہ سر جہا نگیر جیسا معززا ور نیک آدمی بھی  کسی  غیر  ملک کا جا سوس ہو سکتا ہے ۔‘‘

’’مگر  وہ قبر کا مجاو ر و کون تھا ؟‘‘ فیا ض نے بے صبری پو چھا ۔

’’میں بتاتا ہوں لیکن در میا ن میں ٹو کنا مت ۔وہ بے چارا اکیلے ہی یہ مر حلہ  طے کر نا  چا ہتا تھا لیکن  میں نے اُس کا  کھیل  بگاڑد یا  ۔ پچھلی رات وہ مجھے ملا تھا ۔اُس نے پوری داستان  دہرا ئی اور شائد ہمیشہ کے لیے رو پوش  ہو گیا  ہو ۔اُسے بڑی ز بر دست  شکست  ہو ئی ہے اوراب وہ کسی کو منہ نہیں دکھا نا چا ہتا۔‘‘

’’مگر وہ ہے کون؟‘‘

’’ایاؔز ۔ چو نکو نہیں ‘میں  بتا تا ہوں ۔ یہی ایاؔز وہ آدمی  تھا جو فا رن آ فس کے سکر یڑی کے ساتھ  کا غذات سمیت سفر کر رہا تھا ۔آ دھے کا غذات اُس کےپاس تھے اور آدھے  سکر یڑی کے پاس ۔اُن پر ڈاکہ پڑا۔ سکر یڑی ما رڈالا گیا اور ایاؔز کسی طرح  بچ نکلا  ۔

مجرموں کے ہاتھ صرف آدھے کا غذات  لگے ۔ایاؔز فارن کی سیکرٹ سروس کا آدمی  تھا ۔وہ بچ  تو گیا  لیکن اُس نے آفس کو رپورٹ نہیں دی ۔وہ دراصل اپنے زمانے کا ایک  ما نا ہو ا آدمی تھا  ۔

اس لیے اس شکست  نے اُسے مجبور کردیا کہ وہ مجرموں سے آدھے کا غذات وصول کئے بغیر آفس میں نہ پیش  ہو ۔وہ جا  نتا تھا کہ  آدھے کا غذات  مجرموں کےکسی کا م کےنہیں۔وہ بقیہ آدھے کا غذات کے لیے اُسے ضرور تلاش کر یں گے ۔

کچھ دنوں کے  بعد اس نے مجرموں کا پتہ   لگا لیا  لیکن اُس کے سر غنہ کا سرا غ نہ مل سکا  ۔وہ حقیقتاًسر غنہ ہی کو  پکڑنا چا ہتا تھا ۔دن گزرتے گئے لیکن ایاز کو کا میا بی نہ ہوئی ۔

پھر اس نے ایک نیا جال بچھا یا ۔اُ س نے وہ عمارت خریدی اور اس میں اپنے ایک وفادار نوکر کے ساتھ  پُرا سر ار طور پر زندگی بسر کر نے لگا۔

اس دوران  میں اُس نے اپنی اسکیم کو عملی جا مہ پہنانے  کے لیے  ایک قبر  در یا فت کی اور وہ سارا میکنزم تر تیب دیا ۔ اچانک اُسی  زمانے میں اُس کا نوکر بیمار ہو کر مر گیا  ۔ایاز کو ایک دوسری تدبیر سو جھ   گئی۔ اس نے نو کر  پر اپنا  میک اَپ کرکے اُسے دفن کر دیا  اور خود اس کے بھیس میں رہنے لگا ۔

ا س کارروائی سے پہلے  اُس نے  وہ عمارت قا نو نی طور پر جج صا حب کے نام  پر منتقل کردی اور صرف ایک کمرہ اپنے  لئے ر ہنے دیا ۔۔۔۔

اس کے بعد ہی اس نے مجرموں کو اس عمارت کی طرف متو جہ کرنا  شروع کیا۔کچھ ایسے طریقے  اختیار کئے کہ مجرموں  کو یقین ہو گیا  کہ مرنے والا  سیکرٹ سروس ہی کاآ دمی تھا  اور بقیہ کا غذات وہ اسی عمارت میں کہیں چھپا کر رکھ گیا ہے۔ابھی حال ہیں میں اُن لو گوں کی رسا ئی اس کمرے تک ہو ئی جہاں  ہم نے لا شیں پا ئی تھیں۔ریوالور والے خفیہ خانے  میں مچ مچ کا غذات تھے ۔اس کا اشارہ بھی انھیں ایاز ہی کی طرف سے  ملا تھا ۔جیسے ہی کو ئی آد می خفیہ خانے والی دیوار کے قر یب پہنچتا تھا ، ایاز قبر کے تعو یذ کے نیچے سے ڈرا ؤ نی آوا زیں نکا لنے لگتا اور دیوار  کے قریب پہنچا ہوا آد می سہم کر  دیو ار سے چپک جا تا ۔

اُدھرایاز قبر کے اندر سے میکنزم کوحر کت میں لا تا اور دیوار  سے تین چھریاں نکل کر اُس کی پشت میں پیو  ست ہو جا تیں ۔یہ سب اُس نے محض سر غنہ کو پکڑنے کے لیے  کیا تھا لیکن سر غنہ میرے  ہا تھ لگا ۔

اب ایا ز شا ئد زندگی بھر اپنے متعلق  کسی کو کوئی  اطلاع نہ دے اور کیپٹن فیاض …میں نے اُس سے وعدہ کیا ہے کہ اس کا نام کیس  کے دوران میں کہیں نہ آپا ئے گا سمجھے اور تمہیں  میرے  وعدے کا پاس کرنا پڑے گا اور تم اپنی رپو رٹ اس طرح مر تب کرو کہ اس  میں کہیں محبو بہ یک چشم کا نام بھی نہ آئے ۔‘‘

’’وہ  تو ٹھیک ہے ۔‘‘فیاض جلدی سے بولا ۔’’وہ دس  ہزارروپے کہاں ہیں جو تم نے سر جہا نگیر سے وصول کئے تھے ۔‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘عمران اپنے دیدے  پھرا کر بولا ۔’’آدھا آدھا با نٹ لیں ۔کیوں ؟‘‘

’’بکواس ہے ‘اُسے میں  سر کا ری  تحویل میں دے دوں گا ۔‘‘فیاض نے کہا ۔

’’ہر گز نہیں ۔‘‘عمران نے جھپٹ کر وہ چرمی بیگ اُٹھا لیا جو اسے پچھلی رات سر جہا  نگیر کےایک آدمی سے ملا تھا ۔

فیاض نے اُس سے ہینڈ بیگ چھین لیا اور پھر اُسے کھو لنے لگا۔

’’خبر دار …ہو شیا ر…‘‘ عمران نے چو کیدار وں کی طرح ہا نک لگا ئی  لیکن فیاض ہینڈ بیگ  کھول چکا تھا اور جو اس نے ’’اَرے باپ ‘‘ کہہ کر چھلا نگ  لگا ئی ہے تو  ایک صو فے  پر جاکر پنا ہ لی ۔ہینڈ بیگ  سے ایک سیا رہ رنگ  کا سا نپ نکل کر فرش پر  رینگ رہا تھا ۔

’’اَرے خدا تجھے غارت کرے ‘ عمران کے بچے…کمینے ۔‘‘فیاض صوفے پر کھڑے  ہو کر دہا ڑا ۔سا نپ پھن کا ڑھ کر صوفے کی طر ف  لپکا ۔فیاض نے چیخ کر دوسری کرسی پر چھلا نگ لگائی ۔کرسی اُلٹ گئی اور وہ منہ کے بل فرش پر گرا۔

اس بارا گر عمران نے پھرتی سے اپنے جو تی کی ایڑی سا نپ  کے سر پر نہ رکھ دی ہو تی تو اُس نے فیاض کو ڈس ہی لیا تھا ۔

سا نپ کا بقیہ جسم عمران کی پنڈلی سے لپٹ گیا اور اُسے محسوس ہو نے لگا جیسے  پنڈلی کی ہڈی ہی  ٹوٹ جا ئے گی۔اُوپر سے فیاض اُس پر  گھو  نسوں اور تھّپڑوں کی با رش کر رہا تھا ۔ بڑی مشکل سےاُس نے دونوں  سے اپنا  پیچھا  چھڑایا۔

’’تم با لکل پا گل ہو  …دیوانے …و حشی ۔‘‘فیاض ہا نپتا ہو ا بولا ۔

’’میں کیا کروں جانِ من ۔خیر  ‘اب تم اسے سرکاری  تحویل میں دے  دو ۔اگر کہیں  میں رات کو ذرا سا بھی چوک گیا ہو تا  تو اس نے مجھے اللہ میاں کی تحویل میں پہنچا دیا تھا۔‘‘

’’کیا یہ  سر جہا نگیر …؟‘‘

’’ہاں !ہم دونوں  میں مینڈ کوں  اور سا نپ  کا  تبا دلہ  ہو اتھا ۔‘‘ عمران  نے کہا  اور مغموم انداز میں چیو نگم  چبانے  لگا اوراُس کے چہرے پر وہی  پرانی حما قت  طا ری ہو گئی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــختم شدـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ