خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’نہایت  آسا نی سے ‘‘۔فیاض سگر یٹ سلگا کر بولا ۔’’تمہارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم اپنا وقت  آوار گی اور عیاشی میں گزارتے ہو لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت  نہیں ۔میں ثبوت مہیا کر دوں گا۔ایک ایسی  عورت  کا انتظام کر لینا  میرے لیے  مشکل نہ ہوگا ۔جو براہِ راست تمہاری امّاں بی کے پاس  پہنچ کر اپنے لٹنے کی دا ستان بیان کردے‘‘۔

’’اُوہ !‘‘ عمران  نے تشویس آمیز  انداز میں اپنے ہو نٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ  سے بولا۔’’امّا بی  کی جو تیاں آل پروف ہیں ۔خیر  سو پر فیاض  یہ بھی کرکے دیکھ لو  ۔تم مجھے  ایک صا بر شاکر  فر زندپا ؤگے ۔لو…چیو نگم سے شوق  کرو‘‘۔

’’اس گھر  میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمہارا‘‘۔فیاض بولا۔

’’تمہارا گھر تو موجود ہی ہے‘‘۔

’’تو تم نہیں بتاؤ  گے‘‘۔

’’ظا ہر ہے‘‘۔

’’اچھا تو اب تم ان معا  ملات میں دخل نہیں دوگے ۔میں خود ہی دیکھ  لو ں گا‘‘۔فیاض اٹھتا ہو اخشک لہجے میں بولا ۔’’اور اگر تم اس کے بعد  بھی اپنی ٹانگ اڑائے رہتے ہوتو میں تمہیں قا نونی گرفت میں لے لو ں گا‘‘۔

’’یہ گرفت ٹا نگوں میں ہو گی یا گردن میں ‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے پو چھا۔چند  لمحے فیاض کو  گھورتا رہا پھر  بولا۔’’ٹھہرو‘‘۔

فیاض رُک کر  اسے بے بسی سے دیکھنے لگا۔

’’عمران نے الماری کھول کر وہی چرمی ہینڈ بیگ نکا لا جیسے وہ کچھ نا معلوم ا فراد کے در میان سے پچھلی رات  کو  اڑالا یاتھا۔اس نے ہینڈ  بیگ کھول کر  چند کا غذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دیئے ۔فیاض  نے جیسے ہی ایک کا غذ کی تہہ کھولی بے اختیار اُچھل پڑا  ۔اب وہ بڑی تیزی سے دوسرے کا غذت پر بھی نظریں دوڑارہا تھا۔

’’یہ تمہیں کہاں ملے ‘‘۔فیاض تقر یباً ہا نپتا ہوا بولا ۔شدت جوش سے اس کے ہاتھ کا نپ  رہے تھے۔

’’ایک ردّی فروش کی دُکان پر …بڑی دشواریوں سے ملے ہیں ۔دو آنے سیر کے حساب  سے‘‘۔

’’عمران !خدا کے لیے …فیاض تھوک نگل کر بولا۔

’’کیا کر سکتا ہے بے چارہ عمران ‘‘۔عمران نے خشک لہجہ میں کہا۔وہ  اپنی ٹانگ اڑائے گا تو تم اسے قا نو نی گر فت میں لے  لو گے‘‘۔

’’پیارے عمران خدا کےلیے سنجید ہ ہو جاؤ‘‘۔

’’اتنا  سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی ۔پی کی ٹا فیاں کِھلا سکتےہو‘‘۔

’’یہ کا غذات تمہیں کہا  ں ملے؟‘‘

’’سڑ ک پر پڑے ملے تھے اور اب میں نے انھیں قا نون کے ہا تھوں  میں پہنچا دیا ۔اب قا نون کا کا م ہے کہ وہ ایسے ہا تھ تلاش کرے جن میں ہتھکڑیاں لگا سکے۔عمران نے اپنی  ٹا نگ ہٹالی‘‘۔

فیاض بے بسی سے اُس کی طرف دیکھتا رہا۔

’’لیکن اسے سن  لو‘‘۔عمران قہقہہ لگا کر کربولا۔’’قا نون  کے فر شتے بھی ان لوگوں تک نہیں  پہنچ سکتے‘‘۔

’’اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معا ملات سے اِن کا غذات کا کیا تعلق  ہے ‘‘۔فیاض نے پو چھا۔

’’یہ تمہیں معلوم ہو نا چا ہیے ۔‘‘عمران دفتعاً سنجیدہ ہو گیا۔’’اتنا میں جا نتا  ہوں کہ یہ کاغذات فا رن سےتعلق رکھتے  ہیں۔ لیکن  ان کا ان  بد معا شوں پاس ہونا کیا معنی ر کھتا ہے‘‘۔

’’کن بدمعا شوں کے پا س سے ‘‘۔فیاض    چو نک کر بولا۔

’’وہی!جو اس عمارت میں …‘‘

’’میرے خدا …‘‘فیاض مضطربا نہ انداز  میں بڑبڑایا ۔’’لیکن یہ تمہارے ہا تھ کس طرح لگے‘‘۔

’’عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہر ا دیئے ۔اس دَوران میں فیاض بے  چینی سے ٹہلتا رہا۔کبھی کبھی وہ رُک کر عمران کو گھورنے لگتا۔عمران  اپنی بات ختم کر  چکا تو اُس نے کہا ۔’’افسوس !تم نے بہت  بُرا کیا ۔تم نےکل ہی اطلا ع کیوں نہیں  دی ‘‘۔

’’تو اب دے رہا ہوں اطلاع ۔اس مکان کا  پتہ  بھی   بتا دیا  ۔جو  کچھ بن پڑے کر لو ‘‘۔عمران بولا

’’اب کیا وہاں خاک پھا نکنے  جا ؤ ں گا‘‘۔

’’ہاں ہاں ! کیا ہر ج ہے‘‘۔

’’جانتے ہویہ کا غذات کیسے ہیں ‘‘۔فیاض نے کہا۔

’’اچھےخاصے ہیں ردّی کے بھاؤ بک سکتے ہیں‘‘۔

’’اچھا تو میں چلا ‘‘۔ فیاض کا غذات سمیٹ کر چرمی ہینڈ بیگ  میں رکھتا  ہو ابو لا۔

’’کیا  انھیں اسی طرح لے جاؤ گے ‘‘۔ عمران نے کہا  ۔’’نہیں ‘ایسا نہ کرو کہ مجھے تمہارے قا تلوں کا بھی  پتہ لگا نا پڑے‘‘۔

’’کیوں ؟‘‘

’’فون کر کے پو لیس  کی گا ڑی منگوا ؤ ‘‘۔عمران نے ہنس کر بولا ۔’’کل رات  سے وہ لوگ میری تلاش میں ہیں ۔میں رات بھر  گھر سے با ہر  ہی رہا تھا ۔میرا خیال ہے کہ اِس وقت مکان کی نگرانی ضرور ہو رہی  ہوگی ۔خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہوکہ کا غذات کیسے ہیں‘‘۔

فیاض پھر بیٹھ گیا۔وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پو نچھ رہا  تھا ۔تھو ڑی دیر بعد اس نے کہا ۔

’’سا ت سال پہلے  ان غذات پر ڈاکہ پڑا  تھا۔لیکن اِن میں سب نہیں  ہیں ، فارن آفس کا ایک ذمہ دار آفیسر اُنھیں لےکر سفر کر رہا تھا ۔یہ نہیں بتا سکتا کہ و  ہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا۔کیو نکہ یہ حکومت کا راز ہے۔آفیسر ختم کر دیا گیا۔اُس کی لاش مل گئی تھی لیکن اس کے ہاتھ  سیکرٹ سروس کا بھی ایک آدمی تھا۔  اُس کے متعلق آج تک نہ معلوم  ہو سکا ۔شائد وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی ‘‘۔

’’آہا ۔تب تو یہ کوئی بہت بڑا کھیل ہے ‘‘۔عمران کچھ سو چتا  ہو ا بولا ۔’’لیکن میں  اسے جلدی ہی ختم کرنے کی کو شش  کروں گا۔‘‘

’’تم اب کیا  کرو گے‘‘۔

’’ابھی کچھ کہنا   قبل ازوقت ہوگا‘‘۔ عمران نے کہا ۔’’لو سنو! اِن کا غذات  کوابھی  اپنے پاس ہی دبائے رہواور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی  لیجاؤ۔میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں اور ہاں …اُس عمارت کے گرددن  رات پہرہ رہنا چا ہیے ‘‘۔

’’آخر کیوں ؟‘‘

’’وہاں میں تمہارا مقبرہ بناؤں گا‘‘۔  عمران جھنجھلا کر بولا۔

فیاض اُٹھ کر پو لیس کی کار منگوانے  کےلیے فون کرنے لگا۔