خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’تیس سال ! تمہاری عمر کیا ہے ؟ ‘‘مجاور اُسے گھو رنے لگا۔

’’پچیس سال‘‘۔

’’بھاگو! مجھے لو نڈا  بنا تے ہو ۔ ابھی بھسم کردوں گا‘‘۔

’’آپ غلط سمجھے یا حضرت ! میں اپنے باپ کےلیے کہہ رہا تھا ۔وہ دو سری شادی کرنے والے ہیں ‘‘۔

’’جا تے ہو! یا!‘‘ مجا ور اُٹھتا ہوا بولا۔

’’سرکار!‘‘عمران ہا تھ جوڑ کر سعادت مندا نہ لہجے میں بولا۔ ’’پو لیس آپ کو بےحد پر یشا ن کر نے والی ہے‘‘۔

’’بھا گ جاؤ  ! پو لیس والے گدھے ہیں ۔وہ فقیر کا کیا بگاڑ لیں گے‘‘۔

’’فقیر کے زیر سایہ دوخون ہو ئےہیں ‘‘۔

’’ہوئے ہوں گے ۔ پو لیس جج صاحب کی لڑکی سے کیوں نہیں پو چھتی۔وہ ایک مسٹنڈے کو لےکر یہا ں کیوں آئی تھی‘‘۔

’’یا حضرت ! پو لیس واقعی گدھی ہے ۔آپ ہی کچھ رہنما ئی فر ما یئے‘‘۔

’’تم خفیہ پو لیس  میں ہو‘‘۔

’’نہیں سر کار ۔ میں ایک اخبا ر کانامہ نگار ہوں ۔ کو ئی نئی خبر مل جا ئے تو پیٹ بھر ے گا۔

’’ہاں ۔اچھا بیٹھ جاؤ ۔ میں اسے بر داشت نہیں کر سکتا کہ یہ مکان جہا ں ایک بزرگ کا مزار ہے‘بد کا ری کا اڈہ بنے۔پو لیس کو چاہیے کہ اس کی روک تھام کرے‘‘۔

’’یا حضرت !میں بالکل نہیں سمجھا‘‘۔ عمران ما یو سی سے بولا۔

’’میں سمجھا تا ہوں ‘‘۔مجاور اپنی سُرخ سُرخ آنکھیں پھا ڑ کر بولا۔’’چودہ تار یخ کو جج صا حب کی لو نڈیااپنے ایک یا ر کولے کر یہاں آئی تھی اور گھنٹوں اندر رہی‘‘۔

’’آپ نے اعتراض نہیں کیا ۔ میں ہوتا تو دو نوں کے سر پھا ڑ دیتا۔توبہ تو بہ  اتنے بڑے بزرگ کے مزار پر‘‘۔عمران اپنا  منہ پیٹنے لگا۔

’’بس   خون کے گھو نٹ پی کررہ گیا ۔کیا کروں ۔میرے مرشد یہ  مکان اُن لو گوں کودے گئے ہیں ‘ورنہ بتا تا‘‘۔

’’آپ کے مرشد؟‘‘

’’ہاں ! حضرت ایا ؔز رحمتہ اللہ علیہ ۔وہ میرے پیر تھے۔اس مکان کا یہ کمرہ  مجھے دے گئے ہیں تاکہ مزار شریف کی دیکھ بھال کر تا ر ہوں‘‘۔

’’ایا ز صاحب کا مزار شریف کہاں ہے؟‘‘

’’قبرستان میں ۔اُن کی  تو و صیت تھی کہ میری قبر برابر کر دی جا ئے  کو ئی  نشان نہ رکھا جا ئے‘‘۔

’’تو جج صاحب کی لڑکی کو آپ پہچا نتے ہیں ‘‘۔

’’ہاں پہچانتا ہوں ۔وہ کانی ہے‘‘۔

’’ہائے !‘‘عمران  نےسینے پر ہاتھ مارا ۔ اور مجاور اُسے گھو رنے لگا۔

’’ا چھا حضرت ! چودہ کی رات کو وہ یہا ں آئی تھی اور سولہ کی صبح کو لاش پا ئی گئی‘‘۔

’’ایک نہیں ‘ابھی ہزاروں ملیں گی ‘‘۔مجاور کو جلال آگیا ۔’’مزار شریف کی حر متی ہو ئی ہے‘‘۔

’’مگر سرکار !ممکن ہےکہ وہ اس کا بھا ئی رہا ہو‘‘۔

’’ہر گز نہیں ۔جج صا حب کے کوئی لڑکا نہیں ہے‘‘۔

’’تب تو پھر معاملہ …ہپ‘‘۔عمران اپنا دا ہنا گال کھجانے لگا۔

عمران وہاں سے بھی چل پڑا ۔ وہ قصبے کے اندر واپس جا رہا تھا ۔دو تین گھنٹہ تک وہ مختلف لوگوں سے پو چھ گچھ کرتا رہا اور پھر شہر کی طرف روا نہ  ہو گیا ۔

کیپٹن فیا ض کا م میں مشغول تھا کہ  اس کے پاس عمران کا   پیغام پہنچا ۔اُس نے اُسے اُس کےآفس کے قریب  ہی ایک ریستوران میں بُلوابھیجا تھا۔

فیاض نے وہا ں پہنچنے میں دیر نہیں لگائی۔عمران ایک خالی میز  پر طبلہ بجا رہا تھا ۔ فیاض کو دیکھ کر  احمقوں کی طرح مسکرایا۔

’’کوئی نئی بات ‘‘۔فیاض نے اس کے قریب بیٹھتے ہو ئے پو چھا۔

’’میر تقی میرؔ غا لب ؔتخلص کرتے تھے‘‘۔

’یہ اطلاع تم بذ ریعہ ڈاک بھی دے سکتے تھے‘‘۔فیاض چڑھ کر بولا۔

’’چودہ تا ریخ کی رات کو وہ محبو بۂ یک چشم کہا ں تھی؟‘‘

’’تم آخر اس کے پیچھے کیوں پڑ گئےہو‘‘۔

’’پتہ لگا کر بتاؤ ۔ اگر وہ کہے کہ اُس نے ا پنی وہ رات کسی خالہ کے ساتھ بسر کی ہے  تو تمہارا فرض ہےکہ اس خالہ سے اس بات کی تحقیق کر کے ہمدرد دواخانہ  کو فوراًمطلع کر وورنہ خط و کتابت  صیغہ رازّمیں نہ ر کھی جا ئے گی‘‘۔

’’عمران  میں  بہت مشغول ہوں ‘‘۔

’’میں بھی دیکھ رہا ہو ۔ کیا آج کل تمہا رے آ فس میں مکھیوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ اکثرت سے یہ مراد نہیں کہ مکھیاں ڈنڈ پیلتی ہیں ‘‘۔

’’میں جا رہا ہو ں ‘‘۔ فیاض جھنجھلا کر اُٹھتا ہو ابولا۔

’’ارے کیا تمہاری ناک پر مکھیا ں نہیں بیٹھتیں ‘‘۔ عمران نے اس کا ہا تھ پکڑ کر بٹھا تے ہو ئے کہا۔

فیاض اُسے گھورتا ہو ا بیٹھ گیا۔وہ سچ مچ جھنجھلا گیا تھا۔

’’تم آئے کیوں تھے؟‘‘اُس نے پو چھا ۔