خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

’’اور چو نکہ سر جہا نگیر اُن کے ہم عمر ہیں لہٰذا…‘‘

’’شٹ اَپ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر بھنا کر بولی۔

’’بہر حال میں یو نہی تڑپ تڑپ کر مر جا ؤ ں گا‘‘۔ عمران کی آواز پھر درد ناک ہو گئی۔

لیڈی جہا نگیر بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

’’کیا واقعی تمہیں افسوس ہے‘‘۔اُس نے آہستہ سے پو چھا ۔

’’یہ تم پو چھ رہی ہو ؟ اوروہ بھی اسی طرح جیسے تمہیں میرے بیان پر شبہ  ہو‘‘۔عمران کی آنکھوں میں نہ صرف آنسو چھلک آئے بہنے بھی لگے۔

’’ارررر…نو نو ما ئی ڈیر…عمران ڈارلنگ …کیسے ہو تم ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے اس کی طرف اپنا رومال بڑھا د یا۔

’’میں اِسی غم میں مر جا ؤں گا‘‘۔عمران  آنسو خشک کرتا ہوا بو لا۔

’’نہیں ۔ تمہیں شا دی کر لینی چا ہیے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے کہا ۔’’اور میں …میں تو ہمیشہ  تمہا ری ہی رہو ں گی‘‘۔وہ دوسرا گلاس لبر یز کر رہی تھی۔

’’سب یہی کہتے ہیں ۔ کئی جگہ سے رشتے بھی آچکے ہیں۔کئی دن ہوئے جسٹس فاروقی کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا۔ گھر والوں نے انکار کر دیا ۔ لیکن مجھے وہ رشتہ کچھ کچھ پسند ہے‘‘۔

’’پسند ہے‘‘۔لیڈی جہا نگیر حیرت سے بو لی ۔’’تم نے اُن کی لڑکی کو دیکھا ہے‘‘۔

’’ہاں۔ وہی نا جو ریٹا ہیو رتھ اسٹا ئل کے با ل بنا تی ہے اور عمو ماًتا ریک چشمہ لگائے رہتی ہے‘‘۔

’’جا نتے ہو ! وہ تا ریک چشمہ کیوں لگا تی ہے ؟‘‘لیڈی جہا نگیر نے پو چھا۔

’’نہیں ۔لیکن اچھی لگتی ہے‘‘۔

لیڈی جہا نگیر نے قہقہہ لگایا  ۔

’’وہ اس لیے تا ریک چشمہ لگاتی ہے کہ اس کی ایک آنکھ غا ئب ہے‘‘۔

’’ہا ئیں …‘‘عمران اُچھل پڑا۔

’’اور غا لباً اسی بناء پر تمہا رے  گھر والوں نے رشتہ منظور نہیں کیا۔

’’تم اُسے جا نتی ہو‘‘۔عمران نے پو چھا ۔

’’اچھی طرح سے اور آج کل میں اُسے ایک خو بصورت آدمی کے سا تھ د یکھتی ہوں ۔ غا لباًوہ بھی تمہا ری ہی طرح احمق ہو گا‘‘۔

’’کون ہے وہ‘میں اس کی گردن تو ڑ دوں گا ‘‘۔ عمران بھپرکر بولا۔پھر اچا نک چونک کر خود ہی بڑبڑا نے لگا۔’’لا حول ولا قو ۃ…بھلا مجھ سے کیا مطلب؟‘‘

’’بڑی حیرت  انگیز با ت ہےکہ ا نتہا ئی  خو بصورت نو جو ان ایک کا نی لڑکی سے کورٹ کرے‘‘۔

’’واقعی وہ دنیا کا آٹھوا ں عجو بہ ہو گا‘‘ ۔ عمران نے کہا۔ ’’کیا میں اسے جا نتا ہوں ‘‘۔

’’پتہ نہیں !کم از کم میں تو نہیں جا نتی اور جسے میں نہ جا نتی ہو ں وہ اس شہر کے کسی ا علیٰ خا ندان کا فرد  نہیں ہو سکتا‘‘۔

’’کب سے د یکھ رہی ہو اُسے‘‘۔

’’یہی کوئی پندرہ بیس دن سے ‘‘۔

’’کیا وہ یہاں بھی آتے ہیں ‘‘۔

’’نہیں …میں نے ابھی انھیں کیفے کا  سینو میں اکثر دیکھا ہے‘‘۔

’’مرزا غا لب نے ٹھیک ہی کہا ہے:

نا لہ سر ما یۂ یک عالم و عا لم کف  خاک

آسماں بیضہ قمری نظرآتا ہےمجھے

’’مطلب کیا ہو ئے ؟‘‘ لیڈی جہا نگیر نے  پو چھا۔

’’پتہ نہیں‘‘۔ عمران نے بڑی معصومیت سے کہا اور پُر خیا ل انداز میں میز پر طبلہ بجا نے لگا۔

’’صبح تک با رش ضرور  ہو گی ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر انگڑا ئی لےکر بو لی۔

’’سر جہا نگیر آج کل نظر نہیں آتے ‘‘۔ عمران نے کہا ۔

’’ایک ماہ کے لیے با ہر گئے ہو ئے ہیں ‘‘۔

’’گڈ!‘‘ عمران مسکرا کر بو لا۔

’’کیوں ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر اسے معنی خیز نظروں  سے د یکھنے لگی۔

’’کچھ نہیں ! کنفیو ش نے  کہا ہے…‘‘

’’مت بو ر کرو ‘‘۔لیڈہ جہا نگیر چڑھ کر بولی۔

’’ویسے ہی…بو ئی  دےدے …کیا تمہا را رات بھر کا پرو گرام ہے‘‘۔

’’نہیں ایسا تو نہیں …کیوں ‘‘۔

’’میں کہیں تنہائی میں بیٹھ کر رو نا چا ہتا ہوں‘‘۔

تم با لکل گدھے ہو ۔ بلکہ گدھے سے بھی بد تر‘‘۔

’’میں بھی یہی محسوس کر تا ہو ں ۔ کیا تم مجھے اپنی چھت کے نیچے رونے کا مو قع دوگی؟کنفیو شس نے کہا …‘‘

’’ عمران …پلیز…شٹ اَپ ‘‘۔