خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

 ناول- خو فنا ک عمارت
مصنف:  ابنِ صفی
Khaufnaak Imarat Novel By Ibn-E-Safi

 

سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آیئنے کے سا منے لچک لچک کرٹائی با ند ھنے کی کوشش کرر ہا تھا ۔’’اونہہ۔پھر وہی۔چھوٹی بڑی ۔میں کہتا ہوں ۔ٹائیا ں غلط آنے لگی ہیں ۔‘‘وہ بڑ بڑا تا ز ہا۔’’اور پھر۔ٹائی۔لا حول ولاقوۃ۔نہیں باندھتا۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گر دن سے جالگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی  کہ چہرہ سرخ ہوگیا اور آنکھیں اُبل پڑیں ۔

’’یخ…یخ…خیں ۔‘‘ اُس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اوروہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے  چیخا ۔’’ارے مرا …بچاؤ!سلیمان!‘‘ایک نو کر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا ۔پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیو نکہ عمران سیدھا کھڑا دونوں ہا تھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا۔

’’کیا ہوا سر کا ر !‘‘وہ گھبرا ئی ہوئی آواز میں بو لا۔

’’سرکارکے بچے مر رہا ہوں‘‘۔

’’اَرے …لیکن …مگر…‘‘۔

’’لیکن …اگر …مگر ‘‘۔عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا ۔’’َاَبے ڈھیلی کر۔‘‘

’’کیا ڈھیلی کروں ۔‘‘نو کر نے تحیر آمیز لہجے میں کہا ۔

’’اپنے با وا کے کفن کی ڈروی …جلدی کر…اَرے مرا‘‘۔

’’تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں ؟‘‘نو کر بھی جھنجھلا گیا ۔

اچھا بے تو  کیا میں غلط بتا رہا ہوں ۔میں یعنی علی عمران ایم ۔ایس ۔سی۔پی ۔ایچ ۔ڈی کیا غلط بتا رہاہوں ۔ابے کمبخت اِسے اُردو میں استعارہ  اور انگر یز ی میں میٹا فرکہتے ہیں ۔اگر میں غلط کہہ رہا ہوں تو با قا عدہ بحث کر۔مرنے سے پہلے یہ بھی سہی۔‘‘

نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی جس کی گر ہ گردن میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں اُبھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور آج یہ  اس کے لیے کو ئی نئی بات نہ تھی۔ دن میں کئی با ر اسےاس  قسم کی حما قتوں کا سا منا  کر نا پڑتا تھا ۔

اُس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھو لی ۔

’’اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آ ئی ۔‘‘ عمران گرج کر بو لا۔

’’غلطی ہوئی صاحب ‘‘۔

’’پھر وہی کہتا ہے ۔کس سے غلطی ہوئی ؟‘‘

’’مجھ سے‘‘۔

’’ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی ‘‘۔عمران ایک صوفے میں گر کر اُسے  گھورتا ہوا بولا۔

نوکر سر کھجا نے لگا ۔

’’جوئیں ہے کیا تمہارے سر میں ‘‘۔عمران نےڈانٹ کر پو چھا ۔

’’نہیں تو ‘‘۔

’’تو پھر کیوں کھجارہے تھے ‘‘۔

’’یو نہی‘‘۔

’’جا ہل ۔گنوار …خواہ مخواہ بے تکی حرکتیں کر کے اپنی اِنرجی بر باد کر تے ہو۔‘‘

نوکر خاموش رہا۔

’یونگ کی سائیکا لو جی پڑھی ہے تم نے ؟‘‘عمران نے پوچھا۔

نوکر نے نفی میں سر ہلادیا۔

’’یونگ کی ہّجے جا نتے ہو‘‘۔

’’نہیں صاحب ‘‘۔نوکر اُکتا کر بو لا۔

اچھا یاد کرو ۔جے ۔یو ۔این ۔جی یونگ۔ بہت سے جاہل اِسے جنگ پڑھتے ہیں اور کچھ جونگ ۔جنھیں قا بلیت کا ہیضہ ہو جا تا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگتے ہیں ۔فرانسیسی میں جے ’’ژ‘‘کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیسی    نہیں تھا‘‘۔

’’شام کو مرغ کھا ئیے گایا تیتر ‘‘۔نوکر نے پوچھا۔

’’آدھا تیتر آدھا بٹیر ۔‘‘عمران جھلا کر بو لا ۔’’ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔‘‘وہ خاموش ہوکر سو چنے لگا ۔

’’آپ کہہ  رہے تھے کہ مسالحہ اتنا بھونا جا ئے کہ سرخ  ہو جا ئے‘‘۔نوکر نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ہاں !اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھو نو ‘‘۔عمران بولا ۔’’کفگیر کو اس بُری طرح دیگچی میں نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہواورپڑوسیوں کی رال ٹپکنے لگے ۔ویسا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں کہاں جا نے کی تیاری کر رہا تھا‘‘۔

’’آپ‘‘۔نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا ۔’’آپ میرے لیے ایک شلوار اور قمیص کا کپڑا خر ید نے جا رہے تھے ۔بیس ہزار کا لٹّھا اور قمیص کے لیے بو سکی۔‘‘

’’گڈ۔تم بہت قا بل اور نمک حلال نوکر  ہو ۔ تم اگر مجھے یا د نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھو ل جا ؤں ‘‘۔

’’میں ٹائی با ند ھ  دوں سرکار !‘‘ نوکر بڑے پیار سے بو لا۔

’’باندھ دو‘‘۔

نوکر ٹائی با ند ھتے وقت بڑبڑا تا جا ر ہا تھا ۔’’بیس ہزار کا لٹّھا    اور بو سکی۔کہیے تو لکھ کر دے دوں۔‘‘

’’بہت زیادہ اچھا رہے گا‘‘۔عمران نے کہا

ٹائی باند ھ چکنے کے بعد نو کر نے کا غذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اُس کی طرف بڑھادیا۔

’’یوں نہیں ‘‘۔عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بو لا ۔’’اِسے یہاں پن کر دو‘‘۔