جانے کب آپ ندامت آپ کو۔

کیوں کسی سے ہو آپ کو
آپ ہی سے محبت ہے۔

ہر طرف رقصاں فریبِ التفات
آپ کو آپ کی عادت ہے۔

جانے کب تک صبر کرنا ہمیں
جانے کب آپ ندامت آپ کو

قوّتِ برداشت میری کم نہ ہو۔
اور خدا رکھّے آپ کو

فرق پڑتا ہے تو کچھ عرض کرتا ہے۔
کیا سنتا دل کی دُرگت آپ کو؟

میں دیتا ہوں
اور ہو جاتی ہے زحمت آپ کو

کس کو راغبؔ اب وفا کا پاس ہے۔
کیوں نہ ہم سمجھیں غنیمت آپ کو

کلام :افتخار راغبؔ (دوحہ، قطر)