جگنو مری سوچوں کے جلے تھے

میرے جلو میں ساجن تھے۔
سب کے لیے مشکل تھے۔

دوڑاۓ سوچوں میں روز لشکر-
کچھ اسپے میں ہی کسے تھے۔

میں گھاٹ پر اترا لے کے کشتی-
کاگوں کے دریا پر گھونسلے تھے۔

آپ کو شفا خانوں کا گماں تھا۔
بہتے فسانے کس نے گھڑے تھے۔

تاریخ کاتب کو بتا دو-
بچوں کے لاشے سوکھے پڑے تھے۔

بدلی بدلیوں میں تھا دھواں سا-
جگنو مری سوچوں کے جلے تھے۔

آواز دشمن کی دب گئی تھی۔
کچھ شعر شاعر نے جب کہے تھے۔

خوں ناب سمندر رات میری-
کے نالے امبر کے ہاں تھے-

کلام: ڈاکٹر پنجاب امبر رانجھا