اسلامی عہد میں‌ کتب کے مصوّر نسخے

تاریخی پس منظر

ادبی اور قصصی کتب کی تصویر سازی کا آغاز اسلامی دور کے اوائل میں ہوا تھا، لیکن جو قدیم نسخے ہمیں ملے ہیں، ان میں سے اکثر چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے دوران تیار کیے گئے تھے۔ حال ہی میں، ایک قابل ذکر واقعہ میں، ایک امریکی انٹیک ڈیلر کے ذریعہ قابوس نامہ کا ایک مصور نسخہ دریافت ہوا، جسے میں نے خود دیکھا ہے۔

قابوس نامہ کا تاریخی منظرنامہ

قابوس بن دشمگیر نے دسویں صدی عیسوی میں قابوس نامہ کو پند و نصائح کے طور پر لکھا تھا۔ تاہم، اس مصور نسخے کی اصلیت پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ موجودہ قیاس آرائیوں کا رجحان یہ ہے کہ یہ نسخہ جعلی ہو سکتا ہے۔

نسخہ کی خصوصیات

یہ نسخہ 413 ہجری کے دوران لکھا گیا تھا اور اس کی رنگین تصاویر انتہائی دلچسپی سے بھرپور ہیں۔ بہرحال، ان تصاویر کے باوجود، اس نسخہ کی اصلیت پر شکوک برقرار ہیں۔

بغداد میں علمی و فنی ترقی

عہد دولتِ عباسیہ کے دوران بغداد نے علوم و فنون کی بھرپور ترقی دیکھی۔ یہ شہر الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ جیسے علمی و ادبی شاہکاروں کا مرکز بنا، جنہیں اس دور میں مصور کیا گیا تھا اور جو آج بھی اس عہد کے نمائندہ تصور کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، کلیلہ و دمنہ کے اصل مصور نسخے آج ہم تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔

نایاب مصور نسخوں کی دریافت

خدیویہ کتب خانہ مصر میں عربی زبان کی معروف کتاب آغانی کا مصور نسخہ موجود ہے، جو عرب ثقافت اور فن کے عروج کی گواہی دیتا ہے۔ مزید برآں، 1914ء میں میونخ، جرمنی کی ایک نمائش میں الف لیلہ کے چند اوراق بھی رکھے گئے تھے، جن میں اس گھڑی کا نقشہ شامل تھا جو ہارون الرشید نے چارلس پنجم کو تحفتاً بھیجا تھا۔

کلیلہ و دمنہ کی تاریخی اہمیت

کلیلہ و دمنہ کو عبداللہ بن مقفع کی کاوش کے نتیجے میں ہندی الاصل کتاب ہتھوپدیش کا عربی ورژن سمجھا جاتا ہے۔ 1914ء کی پیرس نمائش میں ایک مصور نسخہ نمودار ہوا، جو 632ھ کا لکھا ہوا تھا۔ یہ نسخہ بغداد میں تیار کیا گیا تھا اور اس میں عراقی دبستانِ مصوری کے اثرات نمایاں ہیں۔

یورپی کتب خانوں میں محفوظ نسخے

یورپ کے کتب خانوں میں متعدد عراقی دبستانِ مصوری کے نسخے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، برٹش میوزیم لندن، کتب خانہ ملّی پیرس، اور ویانا کے کتب خانوں میں یہ نسخے دیکھے جا سکتے ہیں، جن پر چینی یا ایرانی اثرات نہیں پائے جاتے۔

وسط ایشیائی اور ایرانی مصوری کا اثر

وسط ایشیائی دبستانِ مصوری نے فردوسی کے شاہنامہ میں ایرانی ثقافت کے ایک بہترین نمونہ کے طور پر اسلامی مصوری میں ایک نیا رزمیہ رنگ پیدا کیا۔ ایرانی مصوروں نے خاص طور پر نظامی کی کلیات اور خواجہ کرمانی کے کلام کو مصور کر کے دنیا میں مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز قائم کیا۔

(ممتاز پاکستانی مصوّر عبدالرحمٰن چغتائی کے مضمون سے اقتباسات)