داستان عزم- محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت داستان

اہم نکات

  1. ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت “داستان عزم” ہر پاکستانی کے لیے پڑھنے لائق ہے، خصوصاً نوجوان نسل کے لیے۔
  2. ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر ڈاکٹر خان نے پاکستان میں رہ کر ایٹمی پروگرام شروع کیا۔
  3. جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے بھرپور تعاون کیا اور امریکہ کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔
  4. ڈاکٹر خان کی محنت اور پاکستان سے لازوال عشق نے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی اور ساتویں ایٹمی طاقت بنایا۔
  5. ڈاکٹر خان کی خدمات اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور ان کا شکریہ ادا کیا جاتا رہے گا۔

یہ ایسی کتاب ہے کہ ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو تو لازماً پڑھنی چاہیے-

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خود نوشت داستان-

ڈاکٹر صاحب کی کتاب 1975ء سے شروع ہوتی ہے، جب وہ پاکستان آئے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے ملاقات کی تھی۔

بھٹو صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ منیر احمد خان اور ان کی ٹیم نے ایٹمی پروگرام میں ایک سال میں کتنی پیش رفت کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق، جب انہوں نے دیکھا تو انہیں سخت دھچکا لگا کیونکہ ایک ناسمجھ انجینئر کی سربراہی میں آٹھ دس جونیئر لوگ ایک کھنڈر میں ایٹم بم بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے یہ سب دیکھ کر بھٹو صاحب کو حقیقت سے آگاہ کیا، جس پر بھٹو صاحب بہت فکر مند ہوئے اور پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ وہ چند ہفتوں میں واپس ہالینڈ جا رہے ہیں۔ بھٹو صاحب نے فوراً کہا کہ آپ نہ جائیں، یہ کام آپ کے بغیر نہ ہو گا۔

ڈاکٹر صاحب نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ ان کی ہالینڈ میں اعلیٰ نوکری ہے اور ان کی بچیاں وہاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب نے پاکستان کے مستقبل کی فکر میں اصرار کیا، جس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ وہ اپنی بیگم سے مشورہ کرکے بتائیں گے۔

یہاں سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا سفر شروع ہوا۔ اس دوران بہت سے مسائل اور غیر ملکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ڈاکٹر صاحب لگے رہے۔ اس وقت کی حکومت اور فوج نے ڈاکٹر صاحب کو مکمل اختیارات دیے، اور یہ کام چلتا رہا۔ اس سفر میں کئی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات پیش آئے۔

مارشل لاء کے بعد، ایک دن اچانک جنرل ضیاء الحق نے کہوٹہ جانے کا فیصلہ کیا۔

ہم جیپ میں بیٹھے اور کہوٹہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ صدر صاحب نے کسی کو نہیں بتایا تھا، اس لیے کوئی حفاظتی جیپ نہ تھی۔ سہالہ سے سڑک بہت خراب تھی، اس میں کئی گڑھے اور دشوار موڑ تھے۔ میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ اس سڑک سے ہمارے سائنسدانوں اور انجینئروں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ یہ سن کر جنرل ضیاء الحق نے فوراً جنرل ضامن نقوی کو حکم دیا کہ سڑک کو فوراً بہترین حالت میں بنا دیں اور چوڑا کر دیں۔

جنرل ضیاء الحق نے پلانٹ دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ یہ تو امریکی پلانٹ لگتا ہے۔ وہ وہاں سب چیزیں غور سے دیکھتے رہے۔ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا تو جنرل ضیاء الحق نے ایک داڑھی والے ڈاکٹر عاصم فصیح کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ امامت کروائیں۔ ہم سب نے وہاں نماز ادا کی، اس کے بعد ہم آرمی ہاؤس پہنچ گئے۔ سڑک کا کام فوراً شروع ہو گیا اور بہترین سڑک تیار ہو گئی، جس سے ہمارے سفر کا وقت کافی کم ہو گیا۔

 

 

Leave a Comment