وہ میری آنکھ سے اوجھل نہیں ہوتی
ایسا معمہ ہے جو حل نہیں ہوتا
میں دھواں سا ہے یہ آنسو تو نہیں ہیں۔
صحرا کی مٹی میں تو جل تھل نہیں ہوتا
ہمیشہ مرا ہر خواب ادھورا
افسانہ محبت کا مکمل نہیں ہوتا
جس دن مرا تجھ سے کوئی ملنا نہیں ہوتا
ایسا نہ سمجھے دل مرا بے کل نہیں ہوتا
بن بن کے بگڑ کر ہر رات مرے خواب دیکھیں
کیوں خواب مرا کوئی مسلسل نہیں ہوتا
فرحتؔ کو سماں خواب میں نہیں پیارا
سر پر جو ترے پیارے کا بادل نہیں ہوتا
کلام :ڈاکٹرفرزانہ فرحت۔۔لندن