خود کو سمجھ گئے کہ اپنوں سے۔ بدگماں اس قدر نہیں۔

افتخارِ شجر نہیں۔
برگ جو شاخ پر نہیں ہے۔

دل سے لگتی ہے جان کی بازی
معرکے ہی سر نہیں ہیں۔

خود کو سمجھیں۔
بدگماں اس قدر نہیں۔

وہ تراشا گیا ہے پتھر سے
دیدۂ سنگ تر نہیں کب

آگے حیران رہ گئے تھے۔
اب کسی بات پر نہیں۔

سب اشعار کس کے اچھّے ہیں۔
بس قطرے گہر نہیں۔

وہ زیادہ ہی پھڑپھڑاتے ہیں۔
''جن پرندوں کے پر نہیں

ٹوٹے پتوں کی طرح تھے راغبؔ
کس طرح دربدر نہیں۔

کلام :افتخار راغبؔ (دوحہ، قطر)
کتاب”خیال کاغذ”