کلام ثمینہ رحمت منال:وہ قیدی جو ہر غم سے آزاد تھا۔

مرا یار سے جدا ہوا

میں کیا سوچتی تھی۔

تو جس دن سے محبت سے الگ ہو گیا۔
خفا سے میرا خدا ہو گیا۔

میں پیتی ہوں اور بیچتی ہوں۔
مجھے زندگی کا نشہ ہو گیا۔

مجھے چھونے کئی تتلیاں
میرا ہاتھ دست صبا ہو گیا۔

آپ میں صدقہ نے سیٹھ کیا۔
تو بستی کی ساری ہو گئی

دعا میں رب سے دیس مانگا
تو ہر درد اور غم کی دوا ہو گئی۔

مرے ہاتھ کی غم کی کنجی لگی
مجھے ہر درجہ عطا ہو گیا۔

وہ قیدی جو ہر غم سے آزاد تھا۔
وہ قیدی بھی آخر رہا۔

ہمیں زیست آخر یہ ہے کیوں؟
یہ عقدہ بھی مجھ پر کشا ہے۔

کہا باپے بچے سے مانگو دعا
مرا کھیت سارا ہرا پہنچا

دنیا بھر میں سانپوں کو کھانے لگتے ہیں۔
ہنر میرا کوئی عصاء ہو گیا۔

ترے عشق کو رسوا کیا
ترا عشق کچا گھڑا ہو گیا۔

نظر آگئی ہے مجھے روشنی
تو میرے لیے اکٹھا کر دیا گیا۔

مرے سر پہ ہاتھ رکھا
مرے واسطے وہ ردا ہو گیا۔

مجھے یاد کرتا تھا وہ ہر گھڑی
میں پاس آیا تو وہ ہو گیا۔

مرے آنسو گرنے پہ وہ رو دیا۔
مرے غم سے وہ آشنا ہو گیا۔

میں نے سوال کرنا
کسی شخص کو خدا ہو گیا۔

مجھے قید میں رکھا جانے لگا
مجھے احساس لینا پڑا

کلام:ثمینہ رحمت منال