میں اب اس کے حوالے نہیں ہوں۔

میں اب اس کے حوالے نہیں ہوں۔

کہ خواب میں خیال نہیں کرتا

مجھے وہ پسند ہے کہ اب میں
اس کے سوالوں میں نہیں ہوں۔

مثال میں کبھی ہوتا تھا پر دوست
کیا مثال میں نہیں ہوں۔

صنم نے دیا ہے دل سے
رقیبوں کی بھی چالوں میں نہیں ہوں۔

میں گنتی سے نکلتا ہوں یارو
اس کے پیارے الفاظ میں نہیں ہوں۔

محبت کے کلیم اس رستے میں کیوں
کبھی آیا میں نام میں نہیں ہوں۔

کلام: ڈاکٹر محمد کلیم