آنکھ بھر آئے تو منظر نظر نہیں آتا۔

آنکھ بھر آئے تو منظر نظر نہیں آتا

ہم سے مقتل میں کٹے سر نہیں دیکھتے ہیں۔

ڈھالتے ہیں جو ویرانی میں لمحہ لمحہ

ٹوٹتے پھوٹتے یہ گھر نہیں دیکھتے

جن فضاؤں میں اڑا کرتے تھے پنچھی ان میں

تیرتے پھرتے ہیں جو پر نہیں دیکھتے ہیں۔

ہونا ضروری تھا۔

تصویر آئینے میں ڈھال کر نہیں دیکھے گا

کچھ تصور میں بھی فاروق کرتے ہیں۔

آرام سے آرام کر کے دیکھے نہیں

کلام: ڈاکٹر زبیر فاروق الرعشی