اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟

اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟

سوشل میڈیا پر لوگ دجال کے آنے کی بحث کر رہے ہیں۔ ہر کوئی اس بارے میں روایات اور کہاویات شیئر کر رہا ہے۔ ہم نے سوچا ہے کہ کیوں نہ اس بحث کا پس منظر جان لیا جائے۔

دجال کے بارے میں علما اور ماہرین کی رائے جاننے سے پہلے، آئیے دیکھیں کہ اصل میں یہ قصہ کہاں سے شروع ہوتا ہے؟

چھٹی صدی قبل مسیح کے آخری دنوں میں، بنی اسرائیل (یہودی قوم) بابل کے بادشاہ بخت نصر سے شکست کھا کر بےحد مایوس ہوئے۔ ان کا مقدس ہیکل تباہ ہوا اور وہ اپنے وطن سے نکال دیے گئے۔ انہوں نے سمجھا کہ ان کا خدا ‘یہواہ’ ان سے ناراض ہو گیا ہے، اور یہ سزا ان کے گناہوں کی وجہ سے ملی ہے۔

اس خیال کے جواب میں، یہ سوچ پیدا ہوئی کہ یہواہ ہمیشہ کے لیے ان سے ناراض نہیں ہوا، بلکہ وہ ایک وقتی سزا کے بعد ایک طاقتور بادشاہ ‘مسیح’ کے ذریعے انہیں دوبارہ اوّنچی منزل عطا کرے گا۔

یہودی عقیدے کے مطابق، حضرت داؤد کی اولاد میں سے ایک عظیم بادشاہ پیدا ہوگا جو اس طرح کی طاقت اور نبوت رکھے گا جیسی کہ انبیاء میں سے ایک نبی کو عطا کی گئی تھی۔ وہ یہودیوں کی حکومت کو پھر سے دنیا پر مسلط کرے گا۔

سید محمد وقاص کی تحقیق کے مطابق، یہ عقیدہ اسی دوران آنے والے نبی حضرت دانیال کی ایک صحیفے پر مبنی ہے۔

موجودہ عہدنامہ قدیم کے حصے ‘انبیاء’ میں شامل صحیفہ دانیال میں لکھا ہے: ‘رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ انسان کی شکل کا ایک شخص آسمان کے بادلوں پر آ رہا ہے۔ وہ قدیم بادشاہ (یہواہ) کے پاس آیا اور اس کے سامنے لایا گیا۔ اس انسانی شکل والے کو سلطنت، عزت اور پوری دنیا پر حکومت عطا کی گئی۔ سبھی اقوام اور زبانیں اس کی خدمت کریں گی۔ اس کی حکومت ہمیشہ قائم رہے گی۔’

حضرت عیسیٰ کے جی اٹھنے کا عقیدہ انجیل اور عہدنامہ جدید کی دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے۔

سید محمد وقاص نے عہدنامہ جدید کی آخری کتاب ‘مکاشفہ’ سے اقتباس کیا ہے، جس میں لکھا ہے: “یہ یسوع مسیح کی طرف سے ہے جو سچا گواہ اور مردوں میں پہلا جی اٹھنے واﻻ ہے اور دنیا کے بادشاہوں پر حکمران ہے-

اسلام کے پیرو کاروں میں بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ دنیا میں آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔
اسلام کے پیرو کاروں میں بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ دنیا میں آنے کا تصور پایا جاتا ہے۔

عہد نامہ جدید کی آخری کتاب “مکاشفہ” میں ایک اور جگہ لکھا ہے: “دنیا کی بادشاہت ہمارے ربّ اور اس کے مسیح کی ہوگی اور وہ ابدالآباد بادشاہی کرے گا۔”

اس طرح یہودی اور عیسائی مذاہب کے ماننے والے قیامت سے پہلے کے دور کو “مسیحائی زمانہ” کہتے ہیں اور اس کے آنے کی توقع رکھتے ہیں۔

اسلام میں بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کا تصور موجود ہے۔ نعیم احمد بلوچ کے مطابق، مسلم علماء کی اکثریت احادیث کی بنا پر یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ حضرت عیسیٰ قیامت کے قریب ایک امتی کی حیثیت سے دوبارہ آئیں گے۔

“البتہ ابن خلدون سمیت چند علماء ان کی آمد ثانی کے قائل نہیں ہیں۔”

یہودی، عیسائی اور اسلامی تصورات میں حضرت مسیحؑ کی دوبارہ آمد پر غور کرنے کے بعد، آئیے اینٹی کرائسٹ، ضد مسیح یا دجال کے تصور کی طرف بڑھیں۔

مسیحی روایات کے مطابق، اینٹی کرائسٹ یا ضد مسیح، جو مسیح کا آخری دشمن ہے، قیامت سے قبل خوفناک انداز میں حکومت کرے گا۔

رابرٹ ای لرنر کی تحقیق کے مطابق، “ضد مسیح” کا لفظ پہلی بار یوحنا کے خطوط میں آیا، اور اس کی زندگی اور دور حکومت کا مکمل قصہ قرون وسطیٰ کے متون میں پایا جاتا ہے۔

“مسیحی تصور ضد مسیح کا یہودی روایات سے لیا گیا تھا، خاص طور پر عبرانی بائبل کی کتاب دانیال سے۔”

“تقریباً 167 قبل مسیح میں لکھی گئی اس کتاب میں اس آخری اذیت دہندہ کے آنے کی پیشنگوئی کی گئی تھی جو ‘اعلیٰ ترین کے خلاف بڑے بڑے الفاظ کہے گا، اور اعلیٰ ترین کے پیروکاروں کو دبا دے گا، اور اوقات و قوانین کو بدلنے کی کوشش کرے گا۔'”

لرنر کہتے ہیں کہ سکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ دانیال کی اس کتاب میں فلسطین کے اس وقت کے یونانی حکمران انٹیوکس چھٹے کی طرف اشارہ تھا، جس نے یہودیت کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔

’لیکن چونکہ انٹیوکس کا نام نہیں لیا گیا تھا، بعد کے قارئین اس پیش گوئی کو کسی بھی ستانے والے پر لاگو کر سکتے تھے۔ ابتدائی مسیحیوں نے اسے رومن شہنشاہوں پر لاگو کیا، جنھوں نے چرچ کو ستایا، خاص طور پر نیرو جنھوں نے سنہ 54 سے 68 عیسوی تک حکومت کی۔

’ابتدائی مسیحی ایک بہت بڑے ضدِ مسیح کے آنے پر زور دیتے تھے۔ یوحنا کا مکاشفہ اس شخصیت کو ’پاتال سے حیوان‘ (11:7) اور ’سمندر سے حیوان‘ (13:1) سے تعبیر کرتا ہے۔‘ وہ ایک عام ارتداد کے وقت آئے گا، لوگوں کو نشانیوں اور عجائبات سے دھوکا دے گا، خدا کے گھر میں بیٹھ کر خود خدا ہونے کا دعویٰ کرے گا۔ آخر میں، وہ یسوع کے ہاتھوں شکست کھا جائے گا، جو اسے ’پھونک‘ اور ’اپنے آنے کی چمک‘ سے تباہ کر دیں گے (2:8)‘۔

اینٹی کرائسٹ کے بارے میں قرون وسطیٰ کا نظریہ ایڈسو، ریپلن، اور بہت سے دوسرے مصنفین نے اس اصول پر قائم کیا کہ وہ ہر چیز میں مسیح کے متضاد مخالف ہے۔

لرنر نے ان سے یہ اخذ کیا کہ ضد مسیح اپنی چالوں سے پیروکار حاصل کرے گا۔ اس کی بالا دستی ساڑھے تین سال رہے گی۔ مسیح کی طرح، دجال یروشلم میں آئے گا، لیکن، مسیح کے برعکس، یہودی اس کی جوش و خروش سے تعریف اور تعظیم کریں گے۔

’اپنے دور حکومت میں وہ ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور سلیمان کے تخت پر بیٹھے گا۔ وہ زمین کے حکمرانوں کو اپنے مقصد کی جانب بدل دے گا اور مسیحیوں کو خوفناک طریقے سے ستائے گا۔ ان تمام لوگوں کو اذیت دی جائے گی جو اس کی چالوں کا مقابلہ کریں گے، اورایسی بڑی مصیبتیں آئیں گی جو دنیا کی ابتدا سے لے کر اب تک کبھی نہیں آئیں۔‘

’مختص کیے گئے ساڑھے تین سال کے اختتام پر، تاہم، دجال مسیح کی طاقت سے تباہ ہو جائے گا، جس کے بعد، بہت ہی مختصر وقفے کے بعد، آخری فیصلہ اور دنیا کا خاتمہ ہوگا۔‘

لرنر کہتے ہیں کہ بعد میں اینٹی کرائسٹ کا تصورمسیح کی مخالفت کرنے والوں کے معنوں میں بھی سامنے آیا۔ اور اس واہمے نے بھی جنم لیا کہ کریڈٹ کارڈ اور الیکٹرانک بارکوڈز معصوم لوگوں پر اینٹی کرائسٹ یا ضد مسیح کی مکاشفہ کے مطابق نشانی 666 لگانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

نعیم احمد بلوچ کے مطابق اسلامی روایات میں دجال کا ذکر قیامت کے آنے کی نشانیوں کے بیان کے ساتھ آیا ہے۔

جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب “میزان” میں لکھا ہے کہ دجال ایک اسم صفت ہے جس کا مطلب ہے بڑا دھوکا دینے واﻻ، فریب کرنے واﻻ اور مکار شخص۔

“اس کا ذکر ‘المسیح الدجال’ کے نام سے بھی ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ قیامت سے پہلے کوئی شخص جھوٹا دعویٰ کرے گا کہ وہ مسیح ہے اور وہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ کے آنے کے تصور کا فائدہ اٹھائے گا اور اپنے کچھ کمالات سے لوگوں کو دھوکا دے گا۔”

“کچھ روایات میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے اندھا ہوگا اور ایمان والوں کے لیے اس کا دھوکا اتنا واضح ہوگا کہ انھیں اس کے ماتھے پر ‘کافر’ لکھا ہوا نظر آئے گا۔”

وحید الدین خان کا خیال ہے کہ دجال سے مراد ایک ایسا دھوکا دینے واﻻ ہے جو ذہنی اور فکری گمراہی پھیلائے گا، نہ کہ کوئی خارق عادت صفات رکھنے واﻻ شخص جو فتنہ و فساد برپا کرے گا۔

وہ لکھتے ہیں کہ “دجال اپنا کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار سے۔ اس لیے، دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو گمراہ کرے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گمراہی میں مبتلا کرے گا۔”

ڈاکٹر محمد عامر گزدر نے پیغمبر اسلام کی بعض احادیث کے حوالے سے لکھا ہے کہ “کوئی اور مخلوق ایسی نہیں ہے جو اپنی فتنہ پردازی میں دجال سے بڑھ کر لوگوں پر حاوی ہو سکے۔”

“مسیح دجال کشادہ پیشانی اور گھنگریالے بالوں واﻻ شخص ہوگا، جس کی ایک آنکھ نہیں ہوگی۔ دوسری آنکھ ایسی ہوگی جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانا۔ اس کا سینہ چوڑا ہوگا، شکل میں کچھ بدصورتی ہوگی اور وہ سب سے بڑا جھوٹا ہوگا۔”

“دجال مشرقی علاقے خراسان سے نکلے گا۔ اس کے پیروکار اپنے چہروں کی شکل میں ڈھالوں جیسے (یاجوج و ماجوج میں سے) ہوں گے۔”

“مسیح دجال مشرق سے آئے گا اور مدینہ جانے کی کوشش کرے گا۔ وہ احد پہاڑ کے پیچھے پڑاؤ ڈالے گا، لیکن پھر خدا کے فرشتے اسے شام کی جانب موڑ دیں گے اور وہیں اس کی موت ہوگی۔”

“اسی لیے آپ (پیغمبر اسلام) فتنۂ دجال سے پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی ایسا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔”

نعیم بلوچ کہتے ہیں کہ روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے وقت جب دجال آئے گا تو حضرت عیسیٰ اس کو قتل کریں گے۔ اس طرح مسلمانوں کے لیے یہ تمام الہامی مذاہب پر فتح ہوگی۔