مڈبھیڑ
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ رام گڑھ پہنچنے پر فریدی کو معلوم ہوا کہ وہ مورتی پولیس کے قبضے سے بھی نکل گئی ہے۔
سپر نٹنڈنٹ پولیس مسٹر ماتھر کوفریدی کے استفسار پر حیرت ضرور ہوئی لیکن پھر فریدی نے اسے مطمئن کر دیا کہ اس نے یونہی با لامقصد اس مورتی کا تذکرہ کیا تھا۔
ماتھر نے اسے بتایا کہ وہ مورتی اسی کے پاس تھی۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اسے عجائب خانے کے منتظم کے حوالے کر دے گا۔
لیکن وہ کہیں گم ہوگئی ہے اور ماتھر نے اسے کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی بلکہ اسے تو ان ماہرین آثار قدیمہ پرانسی آرہی تھی جنہوں نے اس مورتی کے متعلق زمین و آسمان کے قلابے ملا کر رکھ دئے تھے ۔
ہوگی بھئی چندر گپت کے زمانے کی لیکن اس سے آج کی دنیا کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے!
حمید کو ہنسنے کا موقع مل گیا تھا ۔
وہ ہر وقت فریدی کو چھیڑ تا رہتا اٹھتے بیٹھتے پیتل کی مورتی کا تذکرہ چھیڑ کر اس کےسراغرسانی کے جنون کا مضحکہ اڑاتا آج بھی دو صبح سے اسے بری طرح تنگ کر رہاتھا۔ اس وقت شام کو جب دونوں ٹہلنےکے لئے نکلے تو حمید نے اسے پھر چھیڑ نا شروع کر دیا۔
’’ ارے وہ کیا ‘‘۔ حمید نے کیا۔
’’کہاں ‘‘۔ فریدی نے پوچھا۔
’’وہ اُدھر!‘‘۔
’’کچھ تو نہیں‘‘۔
’’میں سمجھا شاید پیتل کی مورتی پڑی ہے‘‘۔
’’آخر تم میرا مضحکہ اڑانے پر کیوں اتر آئے ہو‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’ آپ نے کام ہی ایسا کیا ہے‘‘۔
’’بھئی تم مجیب آدمی ہو… آخر تم میرے ساتھ آئے ہی کیوں ؟‘‘
’’ اس لئے کہ اب آپ کو یہاں سے واپس لے جاؤں‘‘ ۔ حمید نے کہا
’’قطعی غلط فریدی بولا ۔ ’’ میں چھٹیاں یہاں گزاروں گا‘‘۔
’’وہ مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’ واقعی بزرگوں کے اقوال کا قائل ہونا ہی پڑتا ہے‘‘۔
’’ کیسے اقوال‘‘۔
’’یہی کہ بیوی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے‘‘ ۔
’’ لاحول ولا و قوة‘‘۔
حمید خاموش ہو گیا۔ شاید اسے کوئی معقول جملہ نہیں سوجھ سکا تھا۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.