’’میں نہایت صدق دل سے کہتا ہوں کہ تمہیں اس کے لیے مجبور نہیں کروں گا‘‘۔فریدی نے کہا اور سگار سلگا کر ہلکے ہلکے کش لینے لگا۔
’’لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ اکیلے سفر کریں‘‘۔
’’پھر تم چاہتے کیا ہو‘‘
’’یہی کہ آپ اپنا ارادہ قطعی ترک کر دیجیے۔‘‘
’’یہ نا ممکن ہے‘‘۔
’’نپولین کا قول ہے کہ دنیا میں کوئی چیز نا ممکن نہیں‘‘۔حمید مُسکرا کر بولا۔
فریدی کچھ کہنے ہی جارہا تھا کہ وہ چونک پڑا۔حمید چپ رہنے کا اشارہ کرکے وہ آہستہ سے بولا۔’’یہ غراہٹ کیسی تھی ؟‘‘۔
’’اونہہ ہوگا کوئی کتاممکن ہے اپناہی کرتا ہو ‘‘۔ حمیدنے لا پروائی سے کہا۔
’’نہیں یہ اپنے کتے کی آواز نہیں ۔ فریدی نے کہا اور اٹھ کر کھڑکی کے قریب چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد غراہٹ کی آواز پھر سنائی دی۔
فریدی کی نگاہیں باہر اندھیرے میں بھٹک رہی تھیں۔ کچھ اور ٹارچ کی روشنی میں اسے ایک بڑا سا کتادکھائی دیا۔ ٹارچ کسی آدمی کے ہاتھ میں تھی جس کی روشنی میں صرف اس کے پیر دکھائی دے رہے تھے۔ کتاز مین پر سونگھ کر غرارہا تھا۔ فریدی نے کمرے کی روشنی گل کردی۔
’’یہ کیا کیا آپ نے‘‘۔ حمید جلدی سے بولا۔
’’خاموش‘‘ فریدی نے آہستہ سے کہا اور تیزی سے دوسرے کمرے میں چلا گیا تھوڑی دیر میں پوری عمارت تاریک ہو گئی۔ حمید اب تک کھڑکی کے قریب کھڑا حیرت سے اس کتے کو دیکھ رہا تھا۔
کتاکسی جگہ گویا جم کر رہ گیا۔ وہ بار بار زمین سونگھتا اور پھر سر اٹھا کر غرانے لگتا۔ اس کے پاس کھڑا ہوا آدمی ادھر ادھر ٹارچ کی روشنی ڈال رہا تھا ۔ چاروں طرف سناٹاتھا۔ قرب و جوار کی عمارتیں بھی تاریک تھیں۔ حمید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ فریدی نے مکان کی روشنی کیوں گل کردی اور وہ کہاں چلا گیا۔
اس آدی کی ٹارچ کی روشنی ادھر ادھر ک عمارتوں پر رینگتی ہوئی پھر کتے پر آکر جم گئی۔ دفعتاً کسی طرف سے ایک فائر ہوا اور کتا اچھل کر دور جا گرا۔
شاید یہ کتے کی آخری ہچکیاں تھیں۔ اندھیرے میں کوئی دور تک دوڑ تا چلا گیا ۔ پتھریلی زمین پر قدموں کی آواز آہستہ آہستہ دور ہوتی جارہی تھی۔ چند لمحوں کے بعد سکوت چھا گیا۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.