’’لیکن میں تو اسے تفریح گاہ ہر گز نہیں سمجھتا‘‘۔
’’بھئی تم مت چلنا میرے ساتھ‘‘ ۔ فریدی نے اکتا کر کہا۔’’ خواہ مخواہ بکواس کرنے سے کیا فائدہ ‘‘۔
’’تو کیا میں یہاں اکیلے رہ کر مکھیاں ماروں گا؟‘‘
’’نہیں با قاعدہ ان کی پرورش کرنا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔
’’عجب مصیبت میں جان ہے ‘‘۔ حمید جھنجھلا کر بولا۔
’’ پھر وہی فضول باتیں !‘‘ ارے میاں اب کون سی مصیبت ہے‘‘۔
’’کیا یہ کم مصیبت ہے کہ میں اتنے دنوں تک آپ سے دور رہوں گا‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’تو پھر چلو‘‘۔
’’ یہ مشکل ہے‘‘۔
’’ تو جہنم میں جاؤ‘‘۔
’’لیکن وہاں بھی اکیلے دل نہ لگے گا ‘‘۔ حمید نے ہنس کر کہا۔
’’اچھافی الحال لائبریری سے نکل جاؤ ‘‘۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’لیکن جاؤں کہاں؟‘‘
’’ارے تو میری کھوپڑی کیوں چاٹ رہے ہو بھائی ‘‘۔ فریدی نے عاجز آ کر اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ لو میں ہی چلا جاتا ہوں‘‘۔
’’تو میں بھی چلتا ہوں آپ ہی کے ساتھ ‘‘۔
’’بھئی مجھے پریشان مت کیا کرو ‘‘۔ فریدی بے دلی سے بولا ۔
’’تو آپ کب چل رہے ہیں رام گڑ ھ‘‘۔
’’تم سے مطلب !‘‘۔
’’بغیر مطلب نہیں پوچھ رہا ہوں‘‘۔
’’میں تمہیں نہیں لے جاؤں گا ۔ فریدی نے کہا۔
’’تو میں آپ کے کاندھے پر تو چڑ ھ کر جاؤں گا نہیں‘‘۔
’’نہیں بھئی تم اس بار میر اساتھ نہ دے سکو گئے ۔ فریدی نے تنگ آکر کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری کارنامہ ہو‘‘۔
’’معلوم نہیں آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں ‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’ مجھے کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے ‘‘۔
’’تب تو میں آپ کا ساتھ کسی طرح نہیں چھوڑ سکتا‘‘۔
’’اماں تم تو جان کو آجاتے ہو‘‘۔
’’کچھ بھی ہو مجھے تو اب چلنا ہی پڑے گا‘‘۔
’’اچھا اچھا بابا۔ اب جاؤ بھی مجھے کچھ ضروری چیزیں دیکھنی ہیں ۔ فریدی نے کہا اور پھر کتابوں کا ڈھیر الٹنے پلٹنے لگا۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.