عمران نے غنو دگی میں کراہ کرکر وٹ بد لی اور بڑبڑا نے لگا ۔’’ہاں ہاں بسنتھلک گیس کی بو کچھ میٹھی میٹھی سی ہو تی ہے‘‘۔
پتہ نہیں وہ جا گ رہاتھا یا خواب میں بڑبڑا رہا تھا ۔
لیڈی جہا نگیر فرش پر بیٹھی ا پنی پر یشا نی پر ہا تھ پھیر کر بسو ررہی تھی ۔دو تین منٹ بعد وہ اُٹھی اور عمران پر ٹوٹ پڑی ۔
’’سور کمینے …یہ تمہا رے با پ کا گھر ہے؟ اُٹھو …نکلو یہا ں سے ‘‘۔ وہ اُسے بری طرح جھنجھو ڑرہی تھی ۔ عمران بو کھلا کر اُٹھ بیٹھا۔
’’ہا ئیں …کیا …سب بھا گ گئے‘‘۔
’’دور ہو جا ؤ یہا ں سے ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے اس کا کا لر پکڑکر جھٹکا ما را۔
’’ہاں ۔ہاں سب ٹھیک ہے‘‘۔ عمران اپنا گر یبا ن چھڑا کر پھر لیٹ گیا۔
اس بار لیڈی جہا نگیر نے با لوں سے پکڑ کر اُسے اٹھایا ۔
’’ہا ئیں ‘کیا ابھی نہیں گیا ‘‘۔ عمران جھلاّکر اٹھ بیٹھا ۔ سا منے ہی قد آدم آئینہ رکھا ہو ا تھا ۔
’’اُوہ !تو آپ ہیں ‘‘۔وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر بو لا۔ پھر اس طرح مُکّا بنا کر اٹھا جیسے اس پر حملہ کرے گا ۔اس طرح آہستہ آہستہ آئینے کی طرف بڑھ رہا تھا جیسے کسی دشمن سے مقا بلہ کر نے کے لیے پھو نک پھو نک کر قدم رکھ رہا ہو ۔ پھر اچا نک سا منے سے ہٹ کر ایک کنا رے چلنے لگا۔آیئنے کے قریب پہنچ کر دیوار سے الگ کر کھڑا ہو گیا …لیڈی جہا نگیر کی طرف د یکھ کر اس طرح ہو نٹوں پر ا نگلی رکھ لی جیسے وہ آیئنے کے قریب نہیں بلکہ کسی دَروازے سے لگا کھڑاہوا اور اس با ت کا منتظر ہو کہ جیسے ہی د شمن دَرواز ے میں قدم ر کھے گا وہ اس پر حملہ کر بیٹھے گا۔ لیڈی جہا نگیر حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی یہ حرکت د یکھ رہی تھی لیکن اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی عمران پینترہ بدل کر آیئنے پر ایک گھو نسہ رسید ہی کر دیا ۔ہا تھ میں چوٹ جو لگی تو ا یسا معلوم ہوا جیسے وہ یک بیک ہوش میں آگیا ہو۔
’’لا حول و لا قوۃ‘‘۔وہ آنکھیں مل کر بولا اور کھسیا نی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔۔پھر لیڈی جہا نگیر کو بھی ہنسی آگئی ۔لیکن وہ جلدہی سنجیدہ ہو گئی۔
’’تم یہا ں کیوں آئے تھے ؟‘‘
’’اُوہ ،میں شا ئدبھول گیا ۔شائد اُداس تھا ۔لیڈی جہا نگیر تم بہت اچھی ہو ۔ میں رو نا چا ہتا ہوں‘‘۔
’’اپنے باپ کی قبر پر رونا ۔ نکل جا ؤ یہا ں سے‘‘۔
’’لیڈی جہا نگیر …کنفیوشس!‘‘
’’شٹ اَپ ‘‘۔لیڈی جہا نگیر اتنی زور سے چیخی کہ اُس کی آواز بھرّا گئی۔
’’بہت بہتر ‘‘۔عمران سعادت مندانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔گویا لیڈی جہا نگیر نے بہت سنجیدگی سے اور نر می سے اُسے نصیحت کی تھی۔
’’عمران خدا کے لیے !‘‘ لیڈی جہا نگیر بے بسی سے بو لی۔
’’خدا !‘‘کیا میں اُس کے ادنیٰ غلا موں کے لیے بھی اپنی جا ن قربان کر سکتا ہو ں…جو مزاج یا ر میں آئے‘‘۔
’’تم چا ہتے کیا ہو ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر نے پو چھا ۔
’’دو چیزوں میں سے ایک‘‘۔
’’کیا ۔۔۔۔؟‘‘
’’موت یا صرف دو گھنٹے کی نیند‘‘۔
’’میں تمہیں اتنا گدھا نہیں سمجھتی تھی‘‘۔
’’مجھ سے پو چھتیں تو میں پہلے ہی بتا دیتا کہ با لکل گد ھا ہوں ‘‘۔
’’جہنم میں جا ؤ‘‘۔ لیڈی جہا نگیر اورنہ جا نے کیا کیا بکتی ہو ئی سر جہا نگیر کی خواب گاہ سے چلی گئی ۔ عمران نے اُٹھ کر اندر سے دروازہ بند کیا ۔ جو تے ا تا ر تے اور کپڑے سمیت بستر میں گھس گیا ۔
یہسو چنا قطعی غلط ہو گا کہ عمران کےقدم یو نہی بلا مقصد ٹپ ٹا پ کلب نائٹ کی طرف اُٹھ گئے تھے ۔اُسے پہلے سے اطلاع تھی کہ سر جہا نگیر آج کل شہر میں مقیم نہیں ہے اور وہ یہ بھی جا نتا تھا کہ ایسے موا قع پر لیڈی جہا نگیر اپنی راتیں کہاں گزارتی ہے ۔یہ بھی حقیقت تھی کہ لیڈی جہا نگیر کسی ز ما نے میں اُس کی منگیتررہ چکی تھی اورخود عمران ہی کی حماقتوں کے نتیجے میں یہ شادی نہ ہو سکی۔
سر جہا نگیر کی عمر تقر یباً ساٹھ سال ضررور ہی ہوگی۔لیکن قویٰ کی مظبو طی کی بنا ءپروہ بہت زیادہ بوڑھا نہیں معلوم ہو تا تھا۔
عمران دم سا دھے لیٹا رہا ۔ آدھ گھنٹہ گزر گیا۔اُس نے کلا ئی پر بندھی ہوئی گھڑی د یکھی اور پھر ا ٹھ کر خواب گاہ کی رو شنی بند کردی ۔ پنجوں کے بَل چلتا ہوا وہ سر جہا نگیر کی لا ئبر یر ی میں داخل ہو گیا۔
یہاں اند ھیرا تھا ۔ عمران نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کی۔یہ ایک کافی طویل و عریض کمرہ تھا ۔ چاروں طرف بڑی بڑی الماریاں تھیں اور درمیان میں تین لمبی لمبی میزیں ، بہر حال یہ ایک ذاتی اور نجی لا ئبر یری سے زیادہ ایک پبلک ر یڈ نگ روم معلوم ہو رہا تھا۔
مشرقی سر پر ایک لکھنے کی بھی میز تھی ۔ عمران سیدھا اُسی طرف گیا ۔جیب سےوہ پر چہ نکالا جو اُسے اُس خوفناک عما رت میں پُراسرار طریقے پر مرنے والے کےپاس سے ملا تھا۔ وہ اُسے بغور دیکھتا رہا ۔پھر میز پر رکھے ہوئے کا غذات اُلٹنے پلٹنے لگا۔
تھو ڑی دیر بعد وہ حیرت سے آ نکھیں پھاڑے ایک را ئٹنگ پیڈ کے لیڑ ہیڈ کی طرف د یکھ رہا تھا ۔اُس کےہاتھ میں دبے ہو ئے کا غذکے سرنامے اور اُس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ دونوں پر یکساں قسم کے نشانات تھے اوریہ نشانات سر جہا نگیر کے آبا و ا جداد کےاُن کارناموں کی یا دگار تھےجو انھوں نے مغلیہ دَور حکومت میں سر ا نجام دیے تھے ۔ سر جہا نگیر ان نشا نات کو اب تک استعمال کر رہاتھا۔اُس کے کا غذات پر اس کے نام کے بجائے عمو ماً یہی نشا نات چھپے ہوتے تھے۔
عمران نے میز کے کا غذات کو پہلی سی تر تیب میں رکھ دیا اور چُپ چاپ لا ئبر یری سے نکل آیا ۔ لیڈی جہا نگیر کے بیان کے مطابق سر جہا نگیر ایک ماہ سے غا ئب تھا…توپھر؟
عمران کا ذ ہن چو کڑیاں بھرنے لگا ۔آخران معاملات سے سر جہا نگیر کا کیا تعلق؟خوان گاہ میں واپس آنے سے پہلے اس نے ایک با ر پھر اُس کمرے میں جھا نکا جہاں لیڈی جہا نگیر سورہی تھی اورمسکراتا ہوا اس کمرے میں چلا آیا جہاں اُسے خود سونا تھا۔
صبح نو بجے لیڈی جہا نگیر اُسے بری طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑکر جگا رہی تھی۔