درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’یہ ٹرک کہاں جا سکتا ہے ۔ فریدی نے کیا۔

’’میں کیا جانوں‘‘۔

’’میرا خیال ہے کہ یہ شہر میں کسی بیوپاری کے یہاں جائے گا۔

’’ممکن ہے ۔ حمید بولا۔‘‘

’’کیفے ڈی فرانس کے سامنے ایک فرم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ ستون و ہیں جارہے ہوں۔ بہر حال اگر ہم  کیفے ڈی فرانس میں لنچ کھا ئیں تو کیا حرج ہے‘‘۔

’’بھلا کھانے پینے میں کہاں حرج ہو سکتا ہے ‘‘۔ حمید جلدی سے بولا۔ مجھے کوئی امید نہیں لیکن خیرممکن ہے میرا قیاس صحیح نکلے ۔ فریدی نے کہا۔

تھوڑی دیر بعد وہ کیفے ڈی فرانس کے سامنے پہنچ گئے ۔ فریدی نے اپنی کا ایک فرلانگ پیچھے ہی فٹ پاتھ سے لگا دی۔

کیفے میں وہ ایک کھڑکی کے پاس والی میز پر بیٹھے یہاں سے وہ باہر کی طرف یہ آسانی دیکھ سکتے تھے۔ سامنے ہی میسرز جی۔ ایم استھا نا خیموں کے تاجر کا گودام تھا۔ گودام کے احاطے میں جابجا بانسوں اور بلیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔

فریدی نے لنچ کا آرڈر دیا۔ تقریباً آدھ گھنٹے کے بعد حمید کے چہرے پر اُکتاہٹ کے آثار پائے جانے لگے۔

’’شہر میں اور بھی بیو پاری ہوں گے ۔‘‘ حمید نے کہا ’’ کیا ضروری ہے کہ وہ یہیں آئے۔ قطعی ضروری نہیں۔ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اس کے متعلق مجھے یقین نہیں ہے ہم تو دراصل یہاں محض لنچ کھانے آئے ۔ اگر اس سلسلے میں کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے تو کیا کہنا“۔

’’ ارے !‘‘ حمید جو سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا چونک کر بولا سچ مچ وہ رہا  ٹرک احاطے کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

’’اب فرمائیے ۔ فریدی مسکرا کر بولا۔

 ٹرک جیسے ہی احاطے میں داخل ہوا دو تین مردور ادھر اُدھر سے دوڑ پڑے۔ فریدی اور حمید لنچ ختم کر چکے تھے۔ فریدی نے بل ادا کیا اور دونوں کیفے سے نکل آئے گودام کے احاطے کے قریب ایک پان والے کی دُکان تھی۔ حمید وہاں سے سگریٹ خرید نے لگا۔

مزدوروں میں اچھی خاصی تکرار شروع ہوگئی تھی۔ وہ مزدورجوٹرک کا مال اتارنے کے لئے دوڑے تھے اس بات پر مصر تھے کہ وہی ان ستونوں کو ٹرک پر سے اتاریں گے لیکن ڈرائیور انہیں اس سے روک رہا تھا ان کے بجائے ٹرک پر بیٹھے گورکھوں نے ستون اٹھا اٹھا کر گودام کے اندر لے جانے شروع کر دیے تھے۔

’’واہ بھیا !یہ بھی کوئی بات ہے سارا دن تو مال ہم نے ڈھویا ۔‘‘ ایک مزدور ڈرائیور سے کہہ رہا تھا۔ اور اب اس وقت تم اپنے مزدور لائے ہو۔‘‘

’’مالک کا یہی حکم ہے۔ میں کیا کروں‘‘۔

 بالآ خر  بات اتنی بڑھی کہ خود میجر کو افس سے نکل کر آنا پڑا۔ اس نے ڈانٹ ڈپٹ کر مزدوروں کو الگ کر دیا تھوڑی دیر بعد ٹرک خالی ہو گیا۔

’’اس میں کچھ بھی نہ نکلا ۔ حمید نے آہستہ سے کہا۔

’’آؤ اب یہاں سے ہٹ چلیں ۔ فریدی نے کہا۔ دونوں اپنی کار میں آکر بیٹھ گئے۔ فریدی نے کار اسٹارٹ کر دی۔

  خوا مخوا بھاگ دوڑ کرتے رہے ۔ حمید نے کہا۔

’’خوا مخوا کیوں ؟‘‘

’’ کیا نکلا ٹرک میں‘‘۔

Leave a Comment