3
کمپاؤنڈ میں گہری تاریکی مسط تھی ۔فریدی اور حمید دروازہ کھول کر دبے پاؤں باہر نکلے۔ چاروں طرف گہرا سناٹا تھا ۔ کتوں کا انتظام وہ پہلے ہی کر چکے تھے اور شاید وہ کمپاؤنڈ ہی میں کہیں بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔
فریدی کا خیال تھا کہ صبح سے قبل اگر وہ ہوش میں آبھی گئے تو وہ اپنی جگہ سے ہلنہ سکیں گے ۔ ان میں بھو نکنے کی بھی سکت نہ ہوگی شاید صرف اونگھ اونگھ کر غراتے رہیں گے۔گھر والوں کو ان رکھوالی کرنے والے السیشن کتّوں پر اتنا بھروسہ تھا کہ انہوں نے چوکیدار بھی نہیں رکھے تھے۔
چار دیواری کے پھاٹک پر صرف ایک آدمی رہتا تھا لیکن عمارت سے بھا ٹک کا فاصلہ دو فرلانگ سے کسی طرح کم نہ رہا ہوگا اس لئے انہیں اس کی چنداں فکر نہیں تھی۔
وہ دبے پاؤں مگر تیزی سے چلتے ہوئے مہمان خانے کے ملبے کی طرف بڑھ ر ہے تھے ۔ قریب پہنچ کر فریدی رک گیااس نے مُڑا کر عمارت پر نظرڈالی جو بدستور تاریکی میں نہائی ہوئی کھڑی تھی ۔
پھر اس نے جیب سے ٹارچ نکالی اور ملبے کے ایک ڈھیر پر جھک پڑا۔ ٹارج کی روشنی کی ایک باریک کی لکیر آہستہ آہستہ ادھر اُدھر رینگ رہی تھی ۔
حمید چپ چاپ فریدی کے ساتھ ادھر سے ادھر حرکت کر رہا تھا ۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ فریدی نے یہ سب کیوں کیا ہے اور نہ ہی اس نے پو چھنے کی زحمت گوارا کی تھی۔
قریب قریب آدھے گھنٹے تک فریدی ان ڈھیروں کو کریدتا رہا پھر اس نے حمید کی مدد سے ایک دبے ہوئے ادھ جلے دروازے کو ڈھیر سے سے نکالا۔ چند لمحے اس کا جائزہ لیتا رہا پھر ٹارچ کی روشنی بند کر کے سیدھا کھڑا ہو گیا۔
’’ یہ کون ہے ؟‘‘ اچانک اس نے آہستہ سے کہا اور ایک طرف ہٹ گیا۔
’’کدھر؟‘‘ حمید نے چونک کر پو چھا۔
فریدی نے ایک طرف اندھیرے میں اشارہ کیا اور پھر حمید وہاں تنہا رہ گیا… فریدی کسی طرف اندھیرے میں رینگ گیا تھا۔
دفعتہ ً حمید کے داہنے شانے سے کوئی چیز زور سے ٹکرائی ۔ ایک ہلکا سا دھما کہ ہوا۔ داہنے گال پر آنچ سی محسوس ہوئی اور حمید لڑ کھڑا گیا۔ پھر اس کی پیٹھ پر بھی ویسا ہی ایک دھما کہ ہوا اور وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔
’’گولی لگی!‘‘ اس کے ذہن نے تیزی سے دہرایا اور پھر اس کا سر گھومنے لگا… پسلی میں گولی… پھیپھڑے میں گھس گئی ہوگی… پھر موت… اس کا دم گھٹنے لگا …لیکن پھر اس نے محسوس کیا کہ تکلیف کا احساس نہ تو شانے میں ہےاور نہ پسلی ہی میں ۔
اس نے زمین پر پڑے اپنے شانے پر ہاتھ پھیرا …پسلی ٹٹولی ۔کہیں کچھ بھی نہ تھا نہ تو گرم گرم خون کی نمی اور نہ کوئی سوراخ … وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا اور پھر ایک تیسرا دھماکہ ہوا۔ اُسے اپنے پیروں کے پاس چمک دکھائی دی ،وہ پیچھے ہٹ گیا۔
’’لاحول ولا قوة… پٹاخ…!‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔
پھر قریب ہی اسے اس قسم کی آواز یں میں سنائی دیں جیسے دو آدمی ایک دوسرے سے الجھ پڑے ہوں۔
’’حمید تم زندہ ہو یا مر گئے !‘‘ اس نے فریدی کا ہلکا سا قہقہہ ۔حمید آواز کی طرف جھپٹا ۔ فریدی کسی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھا۔
’’یہ شریرلڑکی …!‘‘ فریدی ہنستا ہوا بولا۔
’’چھوڑو مجھے !‘‘ حمید نے ایک نسوانی آواز سنی جو صوفیہ کے علاوہ اور کسی کی نہیں ہو سکتی تھی ۔
پھر وہ بے بسی سے ہنسنےلگی۔
’’تمہیں شاید سر مخدوم کے قاتل سے ہمدردی ہے!‘‘ فریدی بولا۔
’’میں نہیں جانتی ! تم لوگ یہی سمجھتے ہو کہ چچا جان کو ہم لوگوں نے مار ڈالا ہے اور تم اس لئے یہاں آئے ہو مگریہ بکواس ہے ۔ ہم سب انہیں بے حد چاہتے تھے ! ‘‘
’’ تم صرف اپنے متعلق وثوق سے کہہ سکتی ہو!‘‘ فریدی بولا ۔
’’ میں سب کو اچھی طرح جانتی ہوں ۔ ان میں پلی بڑھی ہوں۔ کوئی اتنا کمینہ نہیں !‘‘