پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ لیکن آپ ان گندے کیڑوں کو یہاں نہیں رکھ سکیں گے !‘‘ وہ جونکوں کے مرتبان کی طرف اشارہ کر کےجھلائی ہوئی آواز میں بولا۔

’’ دیکھئے جناب ! ‘‘حمید نے اپنی ٹھوڑی کھجاتے ہوئے کہا۔ ’’ آپ ان معزز جونکوں کی تو ہین نہیں کر سکتے ۔ ان میں سے ایک تو یقیناً لیڈی کہلانے کی مستحق ہوگی۔ ایک نائٹ کی وارث ہونے کی بنا پر !‘‘

معمر آدمی صرف دانت پیس کر رہ گیا۔

’’آپ کو ہماری وجہ سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی !‘‘ فریدی نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔

’’ میں سب سمجھتا ہوں !‘‘ معمر آدمی سر ہلا کر بولا ۔’’ آپ کو شبہ ہے آپ سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے ہی کسی نےمہمان خانے میں آگ لگائی تھی !‘‘

’’ اگر آپ سر مخدوم کو پاگل تصور کرتے ہیں تو یقیناً مجھے یہی سوچنا چاہئے !‘‘

’’نہیں وہ پاگل نہیں تھے !‘‘ معمر آدمی نے جھلا کر کہا۔

’’تب پھر یہ وصیت سو فیصدی جائز ہے!‘‘

’’قانون اسے ناجائز قرار دے گا !‘‘وہ کرسی کے ہتھے پر ہاتھ ماکر بولا۔

’’ او ہو! مجھے اس کی فکر نہیں ۔ جب تک قانون فیصلہ کرے مجھے یہیں رہنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے ہی جونکیں مرجائیں پھر سب کچھ آپ ہی کا ہے!‘‘

’’یہ ابھی مرجائیں گی !‘‘ دروازے کے قریب سے ایک غصیلی آواز آئی۔ وہ چونک کر مُڑے۔

صوفیہ اپنے ہاتھ میں ایک وزنی ساہتھوڑا لئے کھڑی تھی ۔

’’نا ممکن …نا ممکن !‘‘ حمید نے جھپٹ کر مر تبان میز سے اٹھالیا۔’’انہیں زندہ رہنا ہے۔یہ غیر فانی معزز جونکیں …ان میں یقیناً ایک لیڈی ہے !‘‘

’’صوفیہ !‘‘ معمر آدمی کی تیز آواز کمرے میں گونجی ۔

’’آپنہیں سمجھتے !‘‘ صوفیہ نے کہا ۔’’یہ لوگ ہمیں پریشان کرنا چا ہتے ہیں !‘‘

’’میں سمجھتا ہوں !تم اندر جاؤ!‘‘

’’خیر پھر سہی !‘‘ صوفیہ حمید کو گھورتی ہوئی چلی گئی ۔ اس بار پھر حمید کو اس آدمی پر تاؤ آیا ۔

’’یہ سب بچے بہت شیطان ہیں!‘‘ معمر آدمی نے معنی خیر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

’’مجھے شریربچے پسند ہیں!‘‘ فریدی کی جوابی مسکراہٹ اس سے بھی زیادہ معنی خیز تھی۔

فریدی اور حمید سچ مچ یہاں قیام کرنے کے لئے آئے تھے لہذا انہیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہیں روک سکتی تھی ۔ انہوں نے اپنے قیام کے لئے وہی کمرے منتخب کئےجن کا تعلق صرف سر مخدوم سے تھا۔ گھر والوں نے نہ انہیں دو پہر کے کھانے کے لئے پو چھا اور نہ شام کی چائے کے لئے ۔

نو کر بھی کوئی پھٹے پھٹے نظر آرہے تھے۔ حکم ماننا تو الگ رہا وہ ا ن کا نوٹس ہی نہیں لیتے تھے ۔ مجبور اًفریدی کو اپنے دو نو کر بلوانے پڑے۔ یہ رنگ دیکھ کر حمید بور ہونے لگا۔ پہلے وہ سمجھا تھا کہ شاید سر مخدوم کے خاندان والے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔

’’اے جونکوں کے مربیّ !‘‘اس نے فریدی سے کہا ۔’’ میں خود کو اچھوت محسوس کر نے لگا ہوں ۔اگر اجازت ہو تو میں دل بہلانے کے لئے بر خوردار بغراخاں کو یہاں لاؤں!‘‘

’’نہیں بہت زیادہ مضحکہ خیز بننے کی ضرورت نہیں ۔لیکن میں تمہیں گھر بھیجنا چاہتا ہوں!‘‘

’’میں انتہائی درجہ شکر گزار ہوں گا!‘‘

’’تم غلط سمجھے!تمہیں چھٹی نہیں دے رہا ہوں ۔ تجربہ گاہ سے ایم ی فورٹین کی بوتل لاؤ اور گوشت کے دوتین ٹکڑے بھی ۔ ورنہ ہم رات کو با ہر نہیں نکل سکیں گے !‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

ان کے رکھوالی کرنے والے کتّے لٹکھنے معلوم ہوتے ہیں۔ اگر یہ رات کو کپاؤنڈ میں چھوڑے گئے تو باہر نکلنا دشوار ہوگا!‘‘

’’باہر نکلنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘

’’بکومت ! کیا تم سمجھتے ہو کہ میں سچ مچ یہاں جونکوں کی پرورش کرنے آیا ہوں !‘‘

’’مگر وہ …لڑکی …صوفیہ !‘‘ حمید گردن کھا تا ہوابڑ بڑایا۔

’’وہہمیں پریشان کر سکتی ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ مگر میں تمہاری صلاحیتوں کی طرف سے کبھی مایوس نہیں ہو سکتا!‘‘

’’کلیجہ گز بھر کا ہو گیا !‘‘ حمید نے خود ہی اپنی پیٹھ ٹھونکتے ہو ئے کہا۔

’’اچھا بس اب جلدی سے جاؤ ۔سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہمیں ساری تیاریاں مکمل کر لینی ہیں !‘‘

حمید چند لمحے فریدی کو عجیب نظروں سے دیکھتا رہا پھر باہر چلا گیا ۔

Leave a Comment