2
وہ لوگ
سر مخدوم کی کو ٹھی شہر کے ایک ایسے حصے میں واقع جہاں گھنٹیآبادی نہیں تھی۔قُرب وجوار میں صرف چند کو ٹھیاں اور تھیں اس کے باوجود بھی اس حصے کا شمار شہری ہی آبادی میں ہو تا تھا اور میونسپل کا ر پورشن کے جلا سوں میں خاص طور سے اس کا نام لیا جاتا تھا ۔ صرف پانچ یا چھ کو ٹھیوں کے لئے میونسپل کا ر پو ریشن کے کلر کوں کو کا فی سر مغزنی کر نی پڑتی تھی۔
سر مخدوم کی کوٹھی ان میں سب سے زیادہ شاندار تھی اوراس کے گرد تقریباً چار فرلانگ لمبی چوڑی چہار دیواری تھی جس میں پائیں باغ اور عقبی پارک سبھی کچھ تھے۔شمالی مغربی گوشے میں گیراج تھا جس میں کئی کا ریں کھڑی رہتی تھیں۔ایک اصطبل بھی تھا جس میں ریس کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔
اصطبل سے ہی مقصل نوکروں کی رہا ئش کے کوراٹر تھے ۔ جنوبی مشرقی کونے پر وہ چھوٹی سی عمارت تھی جو کبھی آؤٹ ہاؤز کے نام سے یاد کی جاتی رہی ہو گی مگر اب تو وہ جلی ہوئی سیاہ اینٹوں اور آدھ جلے دروازوں کا ڈھیر تھا۔
سر مخدوم اسی عمارت میں جل کر مر ے تھے۔ وہ وہاں تنہا ہی تھا۔آگ لگی لیکن انہیں باہر نکلنے کا موقع نہ مل سکا ۔ اس سلسلے میں کئی طرح کی راویتیں مشہور تھیں لیکن اخبارات میں صرف اتنا ہی آیا تھا ۔
سر مخدوم عادات واطوار سے عجیب تھے اس لئے ان کے اس طرح جل مرنے پر کم از کم ان کے حلقے کے لوگوں کی طرف سے اظہا رحیرت نہیں کیا گیا ۔ وہ بہت زیادہ موڈی آدمی تھے…اور اسی حدتک جذباتی بھی ۔ان کے شناساؤں کا عام طور پر یہ خیال تھا کہ شاید انہوں نے آؤٹ ہاؤز میں آتش بازی سے شوق کیا ہو اور اس طرح آگ لگ گئی ہو۔
سر مخدوم کو آتش بازی سے بھی دلچسپی تھی ۔ شب برات کے زمانےمیں وہ اپنے ہا تھوں سے مختلف قسم کی آتش بازیاں بناتے تھے۔بات یہ تھی کہ سر مخدوم خاندانی ریئس نہ تھے۔انہوں نے خود اپنے وقتِ بازوں سے یہ پو ریشن حاصل کی تھی ۔کسی زمانے میں وہ عام آدمیوں کی طرح سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر مسالے کی چاٹ بھی کھایا کر تے تھے لہٰذا دولت مند اور خطاب یا فتہ ہو جانے کے بعد بھی ان میں یہ عام آدمی …تھوڑا بہت باقی رہ گیا تھا ۔
اور اسی بنا پر وہ اپنے طبقے میں عادات و اطوار کے کے لحاظ سے عجیب سمجھے جانے لگے تھے۔ بہر حال وہ خطاب یافتہ ہوجانے کے بعد سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر بار و مسالہ کی بات تو نہیں کھاتے تھے مگر شب برات کا چاند دیکھ کرشاید شہر میں سب سے پہلےہوائی وہی داغتے تھے۔
اس کے بعد شب برات تک کے لئے آؤٹ ہاؤزا اچھا خاصا بارود خانہ بن کر رہ جاتا تھا۔ وہ شب وروزو ہیں رہکر مختلف قسم کی آتش بازیاں بنا یا کر تے تھے ۔غالباً اسی لئے ان کے بعض حاسد و نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ ان کے باپ دادا آتش باز تھے۔
جب ایک رات آؤٹ ہا ؤز میں آگ اس کے علاوہ اور کچھ نہ سوچ سکے کہ آتش بازی کا شوق رنگ لایا۔
سر مخدوم کا کنبہ کافی بڑاتھا خود انہوں نے تو سرے سے شادی ہی نہیں کی تھی لیکن بھائی بھتیجے کئی عدد تھے اور پورا کنبہ کم و بیش بارہ نفوس پر مشتمل تھا۔ ان میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔
جس وقت فریدی کی کیڈ یلاک کوٹھی کی کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی کنبے کے بیشتر افراد شایہ ناشتے سے فارغ ہو کر برآمدے میں آبیٹھے تھے۔
فریدی کے ساتھ سولیسٹر جعفری بھی تھا اور سرجنٹ حمیدا اپنے داہنے ہاتھ میں ایک شیشے کا مرتبان اٹھائے ہوئے تھا جس میں پندرہ عدد جو نکیں تھیں اور اس کا دل خوشی سے ناچ رہا تھا کیونکہ برآمدے میں اسے وہ لڑکیبھی نظر آئی تھی جس کے متعلق اس نے صحیح اندازہ لگایا تھا۔
سر مخدوم کے خاندان والوں نے انہیں تنفرآمیز نظروں سے دیکھا۔ معاملات کوسمجھنے کے لئے ان دو اجنبیوں کے ساتھ جعفری کی موجودگی بھی کافی تھی۔ اگر وہ بھی نہ ہوتا تو وہ جونکوں والا مرتبان ہی انہیں سب کچھ سمجھا دیتا۔
وہ بر آمدے کے قریب پہنچ گئے لیکن سر مخدوم کے خاندان والوں میں سے کسی نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ فریدی پورچ میں رک کر بڑے بے تعلقانہ انداز میں ادھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا ۔’’ یہ عمارت تبدیلی کے لئے خاصی خوشگوار ثابت ہوگی۔ مجھے پسند آئی !‘‘
فریدی نے یہ جملہ اتنی اونچی آواز میں کہا تھا کہ برآمدے میں بیٹھے ہوئے لوگ بہ آسانی سن سکیں ۔ حمید نے دیکھا کہ وہی لڑکی جھپٹ کر اپنی جگہ سے اٹھی اور برآمدہ طے کر کے ٹھیک فریدی کے سامنے آکھڑی ہوئی ، اس کےہونٹ پھڑک رہے تھے ، سانس پھول رہی تھی اور کان کی لویں سرخ ہو گئی تھیں ۔
’’چلے جاؤ یہاں سے !‘‘ وہ پھاٹک کی طرف ہاتھ تان کر حلق کے بل چیخی۔
فریدی بڑی سنجیدہ اور ترحم آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
اچانک ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بھی تیز قدموں سے چلتا ہوا پورچ میں آگیا اور اس نے لڑ کی کا بازو پکڑ کر کہا۔
’’ صوفیہ … یہ بدتمیزی ہے…. بد اخلاقی ہے ۔‘‘ پھر وہ فریدی سے بولا ۔ ’’معاف کیجئے گا یہ ابھی نا سمجھ ہے !‘‘
’’ اوہ …کوئی بات نہیں ! ‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ مجھے محض مرحوم کی وصیت کا پاس ہے ورنہ میں بہت مشغول
آدمی ہوں اور مجھے سب سے زیادہ آرام اپنے گھر ی پر ملتا ہے!‘‘
’’تو پھر یہاں تمہیں تکلیف ہی تکلیف ہوگی ! ‘‘ صوفیہ جلدی سے بولی۔