’’کل رات سے میں نے اپنا پچھلا نظریہ ترک کر دیا تھا!‘‘ فریدی مسکرا کر بولا۔’’ کل رات گئے میں نے ناصر کو کوئی چیز عقبی پارک میں دفن کرتے دیکھا اور جب یہ حضرت وہاں سے چلے گئے تو میں نے اسے دوبارہ کھول کرنکال لیا۔
وہ ایک ادھ جلا ہوتا تھا۔ یہیں سے میرے خیالات نے پلٹا کھایا پھر گل ہی رات کو میں نے بوڑھے نوکر کو جنگل میں گھستے دیکھا تھا وہ اپنے بغل میں ایک پو ٹلی دبائے ہوئے تھا… کیا اس میں تمہارے لئے کھانا نہیں تھا!‘‘
’’ٹھیک ہے ! وہ بے چارہ اس راز سے واقف تھا… اور اسی کی بدولت میں اب بھی زندہ ہوں ور نہ …!‘‘ سر مخدوم نے ناصر پر قہر آلود نظر ڈالی اور خاموش ہو گیا۔
کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ ’’یہ میر اظرف تھا کہ میں نے اس مردود کو خود ہی پولیس کے حوالے نہیں کیا۔ یہ پہلے بھی کئی بار میری جان لینے کی کوشش کر چکا تھا۔
جب… میں نے دیکھا کہ یہ کی طرح باز نہ آئے گا تو میں نے وصیت مرتب کی ۔ میں نے سوچا کہ اگر کبھی غفلت میں ماراہی جاؤں تو کم از کم میری موت کو اتفاقیہ نہ سمجھا جائے ۔
اس کے لئے میں نے تمہیں منتخب کیا۔ اس لئے کہ تم اس صدی کا بہترین دماغ ہو۔ جو نکوں والا معاملہ در اصل انہیں کم بختوں کے لئے ایک قسم کا استعارہ تھا۔
یہ جو جونکوں کی طرح مجھے چوستے رہتے ہیں… اور آخر انہوں نے میرا خاتمہ ہی کر دینے کی اسکیم بنائی ۔‘‘
’’ آپ سب کو نہ کہئے !‘‘ شمشاد دبی ہوئی آواز میں بولا۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تمہیں …کتنا رنج تھا میری موت پر !‘‘ سر مخدوم نے طنر آمیز لہجے میں کہا۔ پھر فریدی سے بولا ۔ ’’ میں آؤٹ ہاؤز میں محض اس لئے سوتا تھا کہ اپنی حفاظت کر سکوں اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اسی رات کو میرے دل میں آگ کا خیال پیدا ہوا۔
میں نے سوچا کہیں یہ کمبخت آگ نہ لگا دے اور میں سوتا ہی رہ جاؤں ۔ اس قدر الجھن ہوئی کہ میں گیراج میں جا کر سو گیا۔
پھر شاید ڈھائی یا تین بجے شور وغل کی وجہ سے آنکھ کھل گئی۔ باہر نکلا تو سچ مچ آؤٹ ہاؤز جل رہا تھا۔ پھر میں غائب ہو گیا۔
میں نے سوچا وصیت محفوظ ہے تم خود ہی پتہ لگاؤ گے ۔ ہاں اس وقت تک مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہاں سے ایک جلی بھنی لاش بھی برآمد ہوگی !‘‘
’’ بے چارہ دانش !‘‘ فریدی آہستہ سے بولا ۔ ’’ دانش کا معاملہ پہلے ہی میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
دربان کے خیال کے مطابق دانش حادثے والی رات کو آیا تھا۔ اگر وہ جرم ہی کرنے کی نیت سے آتا تو نہ تو وہ اتنے زیادہ نشے میں ہوتا کہ خود سے چل نہ سکتا اور نہ دربان کو چھرا دکھاتا۔
ظاہر ہے کہ اسے چلنا دو بھر ہورہا تھا۔ اسی لئے دربان اسے سہارا دے کر کوٹھی میں پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس پر دانش نے بگڑ کر چھرا نکال لیا۔ پھر صوفیہ نے اسے آؤٹ ہاؤز کی طرف جاتے دیکھا۔“
’’صوفیہ کہاں ہے؟ ‘‘سر مخدوم نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔