پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’وہی جسے ہونا چاہئے ! ‘‘ فریدی کی آواز سنائے میں گونجی۔

’’ دانش !‘‘ شمشاد نے آگے بڑھ کر کہا۔

’’دانش!‘‘ فریدی تمسخر آمیز انداز میں ہنسا۔

’’اگر دانش ہی ہے تو میں پولیس کو فون کرتا ہوں !‘‘ ناصر عمارت کی طرف جانے کے لئے مُڑا۔

’’ٹھہر و !‘‘فریدی نے سخت لہجے میں کہا۔ ’’ پہلے اس لاش کو اٹھواؤ جو وہاں جنگل میں پڑی ہے!‘‘

فریدی نے ریوالور نکال لیا تھا اور اس کا رُخ ناصر کی طرف تھا۔

’’ کس کی لاش ؟‘‘ شمشاد چیخا۔

’’ بوڑھے نو کر سردار کی… ناصر چپ چاپ کھڑے رہو ورنہ ایسی جگہ گولی ماروں گا کہ بقیہ زندگی جہنم بن جائےگی!‘‘

’’کیا بے ہودگی ہے ؟‘‘ ناصر سہمی ہوئی آواز میں چیخا ۔

’’ حمید !‘‘فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’ میری جیب سے ہتھکڑیاں نکال کرنا صر کے لگا دو !‘‘

’’ کیا بکواس ہے؟ ‘‘شمشاد حلق پھاڑ کر چیخا ۔

’’اگر کسی نے مداخلت کی تو بے دریغ گولی ماردوں گا۔ مجھے سب جانتے ہیں !‘‘

حمید نے فریدی کی جیب سے ہتھکڑیاں نکالیں اور ناصر کی طرف بڑھا۔ ناصر اچھل کر بھاگا لیکن شب خوابی کے لبادے نے اُسے زیادہ دور نہیں جانے دیا ۔ بھاگتے ہی وہ اس سے الجھ کر گرا، حمید نے اُسے دبوچ لیا۔

ناصر کے ہتھکڑیاں لگا دی گئیں ۔ وہ کسی تھکے ہوئے خچر کی طرح ہانپ رہا تھا۔

’’ باہر آؤ!‘‘ فریدی نے گیراج کے دروازے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’تم نے مجھے بہت پریشان کیا ہے سر مخدوم !‘‘

’’سر مخدوم !‘‘ حمید تحیر آمیز آواز میں چیخا۔

’’سر مخدوم ! ‘‘ فریدی کے ہونٹ بھنچ گئے ۔ ’’ سر مخدوم جنہوں نے قانون سے مذاق فرمایا ہے!‘‘

گیراج کا دروازہ کھڑ کھڑاہٹ کے ساتھ کھلا ۔ لالٹینیں اوپر اٹھیں ، ان کے سامنے ایک دبلا پتلا اگر مضبوط جسم کا بوڑھا کھڑا تھا۔

’’ ماموں جان !‘‘ شمشاد چیخا۔

’’ بڑے سرکا ر!‘‘ نو کر چلائے۔

اور حمید اپنی کھوپڑی اس طرح سہلانے لگا جیسے گرمی چڑھ گئی ہو۔

تھوڑی دیر بعد وہ ہال میں بیٹھے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھ رہے تھے ۔ ان میں ناصر بھی تھا لیکن اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بڑی ہوئی تھیں اور اس نے اپنا سر میز پر اوندھا رکھا تھا۔

’’ میں چُھپ کر تم لوگوں کی گفتگو سنا کرتا تھا !‘‘ سر مخدوم نے فریدی سے کہا۔ ’’ تم دونوں ہمیشہ دانش ہی کے بارے میں باتیں کرتے تھے !‘‘

Leave a Comment