’’سڑی ہوئی لکڑی کا تھا !‘‘ حمید نے کہا۔
’’کام چور… بھسڈی !‘‘ فریدی غرا کر حمید کی طرف پلٹا ۔
’’شیشم… شیشم… دیوار… کی لکڑی!‘‘ حمید بوکھلا کر ہکلانے لگا۔
فریدی نے اس کی گردن و بوچی اور دروازے میں دھکا دے دیا۔
وہ دونوں کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے۔ گیراج کے سامنے کئی آدمی کھڑے تھے۔ حمید کی ٹارچ کی روشنی دیکھ کر وہ خاموش ہو گئے۔
وہ دونوں تیز قدموں سے چلتے ہوئے ان کے قریب پہنچ گئے ۔ یہ کوارٹروں میں رہنے والے ملازمین تھے۔
فریدی اور حمید کو دیکھ کر اُن میں سے ایک نے کہا۔
’’صاحب !یہاں گیراج میں کوئی گھسا ہوا ہے!‘‘
فریدی نے آگے بڑھ کر گیراج کے دروازے کو دھکا دیا۔ وہ اندر سے بند تھا۔ فریدی نوکروں کی طرف مُڑا ۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ کسی نے عمارت کی طرف سے پکار کر کہا ۔ آواز ناصر کی تھی۔
فریدی نے ایک طویل سانس لی اور مسکرانے لگا۔ نوکروں کی لالٹینوں کی مدھم روشنی اس کے چہرے پر پڑرہی تھی۔
حمید کو اس کی مسکراہٹ بڑی بھیا نک معلوم ہوئی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور وہ لالٹینوں کی زرو زرد روشنی میں گوشت پوست کے بجائے تانبے کا ایک طویل القامت مجسمہ معلوم ہورہا تھا۔
کئی قدموں کی آہٹیں گیراج کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ فریدی خاموش کھڑا اندھیرے میں گھورتا رہا۔ آنے والے ناصر، شمشاد اور فرحان تھے ۔ انہوں نے شب خوابی کے لبادے پہن رکھے تھے اور ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسےسوتے سے اٹھے ہوں۔
’’ صاحب میں کہتا ہوں!‘‘ ایک نو کر دفعتہ بولا ۔’’ گیراج میں کوئی ہے۔ میں نے اُسے گھستے دیکھا تھا!‘‘
’’کون ہے ! ‘‘ ناصر کپکپائی ہوئی آواز میں بولا ۔