کوئی بڑی تیزی سے دوڑتا ہوا اس کے قریب سے گزر گیا۔ حمید نے اس پر جھپٹنا چاہا لیکن ایک دہکتا ہوا انگارہ ’’شائیں ‘‘ سے اس کے سر پر سے گز ر گیا ۔اسے پھر اوندھے منہ گر جانا پڑا۔ اس بار بھی وہ بال بال بچا تھا۔ اس نے اصطبل کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنی ۔
حمید دو منٹ تک دَم سادھے پڑا رہا ۔ اب پھر پہلے کی طرح سناٹا تھا ۔ وہ اٹھنے کا ارادہ کر رہی رہا تھا کر کسی جاگتے ہوئے آدمی کے قدموں کی آواز سنائی دی جو آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی گئی۔ کوئی دیوار کے دوسرے سرے کی طرف بھاگتا ہوا چلا گیا تھا ۔
حمید مڑکر دروازے کی طرف رینگنے لگا۔ اسے اگر اس قسم کے واقعات کی توقع ہوتی تو وہ خالی ہاتھ بالکل نہ آتا۔ اس نے اس میں عافیت کبھی کہ چپ چاپ واپس جا کر فریدی کو تلاش کرے۔
تھوڑی دیر قبل کا ہنگامہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عجیب و غریب تھا۔ حمید نے محسوس کیا تھا کہ اس میں ایک سے زیادہ آدمیوں کا ہاتھ تھا …مگر وہ کون تھے ؟ نو کر کہاں غائب ہو گیا تھا…
وہ بھاگتا ہوا آدمی کون تھا جو اس کے قریب سے گزر کر اصطبل میں جا گھسا تھا ؟
غالباً اسی پر کسی نے فائر کیا تھا ۔ کیا وہ بوڑھا نوکر تھا ؟… مگر نہیں! اور اتنی تیزی سے نہیں دوڑ سکتا تھا … پھر؟ کیا وہ دانش تھا؟… اگر وہ دانش تھا تو فائر کر نے والا خریدی ہی ہوسکتا تھا؟ مگر وہ چیخ ؟ وہ تو صریحاً کسی زخمی ہی کی شیخ ہوسکتی تھی ؟
حمید بڑی احتیاط سے دروازے کی طرف رینگتا رہا۔ نیند کے خمار سے اس کا ذہن بو جھل ہو رہا تھا اور سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں جواب دے چکی تھیں۔
اس وقت محض اتفاقات ہی نے اس کا ساتھ دیا تھا ورنہ دو میں سےایک گولی ضرور اسے دوسری دنیا کی سیر کرا دیتی۔
وہ دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا… اور پھر جیسے ہی اس نے زمین سے اٹھنے کی کوشش کی کسی نے پیچھے سے اس پر حملہ کر دیا۔
’’ارے خدا تمہیں غارت کرے ! ‘‘حمید دانت کا کچکچا کر پلٹا۔
’’ لا حول ولا قو ۃ! ‘‘حملہ آور بڑ بڑا کر الگ ہٹ گیا۔
’’نہیں … مار ڈالئے !‘‘ حمید جھلا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے فریدی کی آواز پہچان لی۔
’’ خاموش رہو! ‘‘فریدی نے آہستہ سے کہا۔ ’’ کیا ادھر سے کوئی گزرا تھا ؟‘‘
’’ اصطبل میں گھس گیا!‘‘حمید ہانپتا ہوا بولا۔
فریدی نے دروازے کو دھکا دیا۔ وہ دوسری طرف سے بند تھا۔ وہ تین چار قدم پیچھے ہٹا اور اچھل کر بائیں شانے سے دروازے میں ٹکر ماری۔ اندر گھوڑے بدک کر ہنہنانے لگے۔ اب کمپاؤنڈ سے بھی متعدد آدمیوں کی آوازیں آنے لگی تھیں ۔
تیسری فکر لگتے ہی دروازہ چڑ چڑا کر دوسری طرف گر گیا۔