کیا مصیبت ہے۔ وہ جھنجلاہٹ میں سوچنے لگا۔ کیا جہنم کا راستہ اصطبل ہی سے ہوکر گزرتا ہے۔ آخر یہ الو کا پٹھا اصطبل میں کیوں گھسا ہے ؟ اس طرح کب تک یہاں کھڑا رہنا پڑے گا۔
حمید نے ٹارچ روشن کر لی ۔ گھوڑوں نےچونک کر اپنے پیر زمین پر مارے اور پلٹ کر روشنی کی طرف دیکھنے لگا۔ لیکن بوڑھا اصطبل میں نہیں تھا…
حمید بوکھلا گیا۔ روشنی کا دائرہ جلدی جلدی ایک جگہ سے دوسری جگہ رینگتا رہا تھا۔ اصطبل میں گھس کر اس نے اونچی اونچی آخوروں میں بھی روشنی ڈالی۔
بات سمجھ میں آگئی لیکن ذرا دیر میں۔ حمید نے ابھی تک اس چھوٹے دروازے کی طرف دھیان نہیں دیا تھا جو چھیول کے جنگل کی طرف کُھلتاتھا۔
وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازه دوسری طرف سے بند نہیں تھا۔ صرف اس کے پاٹ بھیٹر دیئے گئے تھے۔ حمید دوسری طرف نکل گیا۔
چھیوں کی گھنی جھاڑیوں میں جھینگر’’ جھائیں جھائیں‘‘ کر رہے تھے اور جب ان کی آواز یں اچانک بند ہو جا تیں تو ایسا معلوم ہوتا جیسے سناٹے میں ایک نظر نہ آنے والی لکیر دوڑتی چلی گئی ہو ۔ پھر یک بیک کہیں ایک جھینگر’’ٹچکا‘‘ دیتا اور نہ ختم ہونے والی جھائیں جھائیں کا سلسلہ پھر شروع ہو جاتا۔
حمید ٹارچ روشن کر کے آگے بڑھا۔ اس نے قدموں کے نشانات کے لئے زمین پر روشنی ڈالنی شروع کی لیکن اسے کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ زمین سخت تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس طویل و عریض جنگل میں کہاں سر مارتا پھرے۔
قریب تھا کہ اسے پھر فریدی پر غصہ آجاتا، ٹارچ اس کے ہاتھ میں کانپ کر بجھ گئی اور خود وہ لڑکھڑا کر ایک طرف لڑھک گیا ۔ نشانہ باز اچھا نہیں تھا۔ ورنہ اس کا وہ ہاتھ تو ضرور ہی زخمی ہو جاتا جس میں اس نے ٹارچ پکڑ رکھیتھی۔ گولی پشت کی دیوار سے ٹکرائی۔
ایک فائر پھر ہوا لیکن حمید نے اٹھنے کی ہمت نہ کی کیونکہ وہ نہتّا تھا ۔ قریب ہی کہیں زور سے جھاڑیاں کھڑ کھڑا ئیں… پھر فائر ہوا. .. حمید دروازہ کے قریب سے ہٹ کر دیوار سے لگا ہوا رینگنے لگا۔
اب کی فائر کے ساتھ کسی کی چیخ بھی سنائی دی۔ آواز جانی پہچانی سی معلوم ہوئی لیکن حمید اس کا فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کس کی ہو سکتی تھی۔