دربان نے آہستہ سے کچھ کہا جسے حمید نہ سن سکا۔ وہ کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور حمید دیوار سے چپکا کھڑااونگھتا رہا۔ پھر دور کے کسی گھڑیال نے گیارہ بجائے ۔
چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف ان دونوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں ۔ کمپاؤنڈ میں کتے بھی نہیں بھونک رہے تھے ۔ شاید فریدی نے آج پھر ان کے لئے کوئی انتظام کر لیا تھا … اور ساڑھے گیارہ بجے عمارت کی کھڑکیوں میں نظر آنے والی روشنیاں بھی غائب ہو گئیں۔
’’ابے تو اُلّو ہے !‘‘ بوڑھے خبطی نے اونچی آواز میں دربان سے کہا ۔’’ بیٹا عشقہے ، دل لگی نہیں ۔مرد ہونا چاہئے ۔آگ میں کود پڑنے کی ہمت ہونی چاہئے!‘‘
حمید اپنا سر سہلانے لگا۔ اب اسے فریدی پر بڑے خلوص نیت سے غصہ آنے لگا تھا لیکن وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ بوڑھے نے اپنی جوانی کی داستان چھیڑ دی تھی۔
’’ مجھے دیکھ … ایک لونڈ یا تھی شکریا۔ بھگا لے گیا اُسے ۔
کچھ دن رکھا۔ پھر ڈھائی سو میں اُسے بیچ کر اس کی چچی کو بھگا لے گیا جو اسی کی عمروں کی تھی۔ پھر وہ سالی کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی ۔ پھر میں نے شکریا کی چھوٹی بہن پرڈور ے ڈالے لیکن اس سے پہلے ہی اس کا بیاہ ہو گیا ۔‘‘
حمید کا دل چاہا کہ بوڑھے کو پکڑ کر اس کی خاصی مر مت کر دے لیکن پھر خاموش رہا ۔اُدھر گھڑیال نے بارہ بجائے اور اِدھر در بان کی چار پائی چڑ چڑائی۔ بوڑھا شاید جانے کے لئے کھڑا ہو گیا تھا۔
حمید نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن اُسے یہ سوچ کر اختلاج ہونے لگا کہ اب اگر اس شیطان کے خالو نے کسی جھولدار پلنگڑی میں لیٹ کر خراٹے لینے شروع کر دیئے تو وہ کیا کرے گا۔ کیا اس حالت میں بھی اسے اس کی نگرا نی کرنا پڑے گی ۔
ایک بار پھر اسے فریدی پر غصہ آگیا…اگر وہ اسے اس نگرانی کا مقصد بتا دیتا تو وہ مختلف حالات میں کوئی مناسب طریق کار اختیار کر سکتا تھا۔ اس طرح جھک مارنے سے کیا فائدہ۔
بوڑھا اصطبل کی طرف جارہا تھا۔ وہ کچھ اونچا بھی سنتا تھا اس لئے حمید کو تعاقب جاری رکھنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی ورنہ اس کے جوتوں کے نیچے بجریاں کڑ کڑا رہی تھیں ۔
بوڑھا اصطبل کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اگر حمید فوراً ہی دیوار کی اوٹ میں نہ ہو جاتا تو اس نے اسے دیکھ ہی لیا تھا … کیونکہ اصطبل کے دروازے پر پہنچ کر وہ اِدھر اُدھردیکھنےلگا تھا۔
پھر وہ اصطبل کے اندر چلا گیا۔ حمید نے دو تین منٹ تک انتظار کیا۔ پھر وہ بھی اصطیل کے دروازے کی طرف بڑھا۔ گھوڑوں کی لید کی بدبو سے اس کا دماغ پھٹنے لگا تھا۔
اصطبل میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ وہ بالکل دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنے لگا۔