’’ کیا ؟‘‘ سعیدہ سہمی ہوئی آواز میں بولی۔ ’’کس ہے؟‘‘
’’ بکواس ہے!‘‘ نکہت گرم ہو گئی ۔’’ تم لوگوں کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔ دانش بھائی صرف قرض خواہوں سےبچنے کے لئے چُھپ گئے ہیں !‘‘
’’ کہاں چھپے ہوئے ہیں ؟‘‘
’’ ہم کیا جانیں ۔ لیکن یہ بکواس ہے!‘‘
’’ہم بہت جلد اسے قانون کے حوالے کر دیں گے !‘‘ حمید نے کہا۔
دونوں حمید پر بُری طرح برس پڑیں اور اسے جان چھڑانی مشکل ہوگئی۔ پھر اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ حمید انہیں اور زیادہ قصہ دلائے ۔ وہ جلتی پر تیل چھڑ کتارہا اور وہ دونوں بھڑکتی رہیں ۔ آخر جب وہ رو دینے کے قریب پہنچ گئیں تو حمید یکلخت وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
وہ پوری عمارت کا چکر لگا کر اصطبل کی طرف پہنچا لیکن فریدی وہاں بھی نہ ملا۔ پھر وہ نوکروں کے کوارٹروں کی سُن گُن لیتا ہو آگے بڑھنے لگا۔
حمید کو ہنسی آگئی ۔ کوئی فوجی پہرہ داروں کی نقل کر رہا تھا۔ وہ تیزی سے آواز کی جانب بڑھا اور پھر اس نے ایسا منظر دیکھا جس کی اسے توقع نہ تھی۔ شمشاد شراب کے نشے میں کھڑا جھوم رہا تھا۔ وہ شمشاد جو آج ہی صبح دانش کیشراب نوشی کا تذکرہ بہت بُرے لہجے میں کر چکا تھا۔
’’توم کا ؤن ہو!‘‘ وہ حمید کے سینے پر انگلی مار کر بولا ۔
’’مائیں اولو کا پاٹھا ہوں!‘‘ حمید اسی کی طرح الفاظ کو کھینچ کر بولا۔
شمشاد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’الگ ہٹو!‘‘ حمید نے اسے دھکا دیا۔
’’توم خود الاگ ہاٹو!‘‘ شمشاد اس سے لپٹ پڑا۔
حمید نے اس کے منہ پر گھونسہ جڑ دیا۔ شمشاد نے گندی سی گالی دی اور کسی پاگل کتے کی طرح حمید کا باز جھنجھوڑ ڈالا ۔ حمید نے بائیں ہاتھ سے اس کی ناک مروڑ دی اور وہ چیخ کر پیچھے ہٹ گیا۔
’’ سالے .. پٹرول چھڑک کر آگ لگا دوں گا! ‘‘شمشاد پھر اس کی طرف جھپٹا۔ اب اسے کچھ ہوش آ گیا تھا۔اس بار حمید کا مکّااس کی ٹھوڑی کے نیچے بیٹھا۔ شمشاد پہلے تو لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹاپھر اچانک اُچھل کر حمید کی گردن دبوچ لی۔ حملہ قطعی غیر متوقع تھا۔ حمید سنبھل نہ سکا اور دو دونوں گھتے ہوئے زمین پر آگرے ۔
’’مجھے یقین ہے کہ میں کامیابی سے قریب ہوں!‘‘
حمید نے اپنا داہنابازو سہلا کر سسکی لی اور منہ بنا کر بولا ۔’’ کس زور سے کاٹا ہے سالے نے !‘‘
’’سالےکا کا ٹا لہر نہیں لیتا !‘‘ فرید ی نے ہنس کر کہا ۔’’ تم بہر حال خوش قسمت ہو۔ اچھا مذاق ختم کرو۔مجھے دوسرا کام سنبھا لنا ہے !‘‘
پھر فریدی کچھ دور چل کر تاریکی میں غائب ہو گیا ۔
حمید اپنا بازو سہلا تا ہوا اپھا ٹک کی طرف بڑھا۔
بوڑھا خبطی دربان سے کسی مسئلے پر الجھا ہوا تھا۔
’’ابے ہاں ہاں …!‘‘ وہ دربان سے کہہ رہا تھا ۔’’ ہما رے حضورنے انگلی کے ایک اشارے سے چاند کے ٹکڑے کر دیئے تھے…اور چاند کا دھبہ اِن ٹکڑوں کا جوڑ ہے !‘‘