پُراسرار وصیت – ابن صفی

رات کا کھانا دونوں نے الگ الگ کھایا۔ جب حمید کھانے کے لئے گیا تو فریدی اس نوکر کی نگرانی کرتا رہا۔ حمید کی الجھن بڑھتی گئی ۔ آخر فریدی گھر کے دوسرے افراد کو چھوڑ کر اس نوکر سے کیوں چمٹ گیا ہے ۔ اُسے وہ ادھ جلا جو تا بھی یاد آرہا تھا ۔آخر وہ کس قسم کا کلیو (clue) تھا۔

وہ کھانا ختم کر کے فریدی کی تلاش میں نکلا ہی تھا کہ سعیدہ اور نکہت سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔

’’ بڑی خوشگوار رات ہے!‘‘ سعیدہ بولی۔

’’ہائے کتنی ٹھنڈک ہے!‘‘نکہت نے ٹکڑالگایا ۔ ’’ آج تو آپ گانا سنائیں گے!‘‘

’’ اور اگر آپ کے ڈیڈی نے بھی ایک آدھ بول سن لئے تو ! ‘‘ حمید نے کہا۔

’’ہم پارک میں چل کر بیٹھیں گے ۔ ڈیڈی ذراسی دیر میں سو جائیں گے !‘‘

’’ اپنے آفیسر کو بھی بلالوں !‘‘

’’اررر…نہیں ۔وہ تو بہتزیا دہ نکچڑ ھے معلوم ہو تے ہیں !‘‘

’’بہترین گاتےہیں !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’چھوٹ!‘‘ نکہت ہا تھ اٹھا کر بولی ۔

’’نا ئیں …اَلاّ قسم !‘‘ حمید جھنجھلا ہٹ میں لچک کر بولا ۔ اور وہ دونوں ہنسنے لگیں ۔

اس وقت حمید سچ مچ اسسے پیچھا چھڑا نا چا ہتا تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ فریدی بری طرح جھلا رہا ہوگا ۔اس نے حمید کو جلد کھا نا ختم کر لینے کی تا کید کی تھی۔

’’ارے تو آپ ناراضکیوںہو رہے ہیں؟‘‘ سعیدہ بولی۔

’’آپ لوگ عجیب ہیں !‘‘ حمید نے کہا ۔

’’ کیوں ؟‘‘ دونوں بیک وقت بولیں۔

’’آپ کے بھائی پر قتل کا الزام ہےاور اس پر بھی آپ زندہ ولی کا ثبوت دے رہی ہیں !‘‘

Leave a Comment