پُراسرار وصیت – ابن صفی

9

بوڑھا ملازم پاگل نہیں تھا۔ عادات و اطوار بالکل صحیح الدماغ آدمیوں کے سے تھے اور وہ کسی سے گفتگو کرتے وقت بہکتا بھی نہیں تھا لیکن تنہائی میں اس کی ذہنی رو بہک جاتی تھی اور وہ در و دیوار سے باتیں کرنے لگتاتھا… 

اور اگر ایسے میں کوئی اسے چھیڑ دیتا تو وہ چونک کر چھینی بھینی ہنسی کے ساتھ یا تو اِدھر اُدھر کی با تیں شروع کر دیتا یا وہا ں سے کھسک جا تا تھا ۔

حمید اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑا اُسے گھورتا رہا۔ نوکر کی پشت حمید کی طرف تھی اور وہ اس طرح اپنےخیالات میں کھویا ہوا تھا کہ اُسے حمید کی موجودگی کا علم نہ ہوا۔ وہ بدستور بڑ بڑاتا رہا۔

’’ سالو… تھان پر بندھے بندھے جگالی کرتے رہو! ‘‘وہ غالباً گھوڑوں سے کہہ رہا تھا۔’’ آدمی ہوتے تو پتہ چلتا ۔شادی کرنی پڑتی ۔بچے ہو تے …اور وہ سالی دن بھر بچے کو گود میں لئے چلا یا کر تی …معنی کے ابا آجا…ابا ڈبا کے آجا۔ ڈبا کے ڈبا آجا …دھت تمہاری کی ۔‘‘

اس نے پھر گھوڑی کو گھونسہ دکھایا اور زمین سے گھاس کے بہت سے تنکے اکھاڑ کر چبانے لگا۔ حمید کا دل چاہا کہ اپنا سر پیٹ لے ۔ کیا فریدی نے اسے سزا دی تھی۔ آخر اس بے دال کے بودم کی نگرانی کا کیا مقصد ہو سکتا ہے لیکن حکم حاکم مرِگ مفاجات …

شام تک اسے اس کے پیچھے لگا رہنا پڑا ۔ اس دوران میں اُس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی جو معمول کے خلاف ہوتی۔ اگر اسے کوئی کام کرنے کو کہا جاتا تو وہ بے چوں و چرا تعمیل کرتا اور اسے خوش اسلوبی سے انجام دیتا ۔

کسی سے گفتگو کرتا تو پاگل پن کا شبہ تک نہ ہوتا لیکن تنہائی نصیب ہوتے ہی پھر بے تکی بڑبڑا ہت کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔ حمید بری طرح تنگ آ گیا تھا۔

مگر فریدی کا موڈ دیکھتے ہوئے حکم سے سرتابی کی ہمت نہیں پڑی۔ اگر وہ فریدی کو ایک بار بھی مسکراتے دیکھ لیتا تو پھرکی نہ کسی طرح اس بور کرنے والی ڈیوٹی سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا۔

Leave a Comment