پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ٹھہرو!‘‘فریدی بولا ۔’’ بے کار نہیں بیٹھو گے !‘‘

’’ہر گز نہیں ۔ میں جاتے ہی سو جاؤں گا !‘‘ حمید نے بڑے خلوص سے کہا اور فرید کی بے اختیار مسکرا پڑا۔

’’ لیکن تم آج نہیں سو سکو گے ! ‘‘اس نے کہا ۔ ’’ ہوسکتا ہے کہ ہم آج ہی کا میاب ہو جائیں ۔ اس کے بعد پھر نہیں کم از کم ایک ہفتے تک سوتے رہنے کی اجازت ہوگی !‘‘

’’اچھا جناب !‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا ۔’’ کام بتا یئے !‘‘

’’ بہت معمولی سا ہے ۔ تمہیں یہاں کے ایک نوکر کی نگرانی کرنی ہے !‘‘

’’کس نوکر کی !‘‘

’’سردار!‘‘

’’اوہ… وہ بوڑھا جو ہر وقت کچھ نہ کچھ بڑ بڑاتا ہی رہتا ہے!‘‘

’’ وہی… بس یہ سمجھ لو کہ اگر وہ جہنم میں بھی جائے تو اس کا پیچھا نہ چھوڑ نا !‘‘

’’ بہتر ہے !لیکن اگر وہاں قلوپطرہ سے ملاقات ہو گئی تو میری واپسی ناممکن ہو جائے گی !‘‘

’’بس چلے جاؤ !‘‘ فریدی اُسے دھکا دیتا ہوا بولا ۔

حمید کو اس نوکر کو تلاش کر لینے میں دشواری نہ ہوئی۔ وہ اصطبل کے قریب زمین پر بیٹھا بڑبڑا رہا تھا۔ بڑبڑاہٹ کے دوران میں وہ کبھی کبھی گھوڑوں کو گھونسہ دکھانے لگتا تھا۔ حمید کو اس پرہنسی آئی اور فریدی پر غصہ ۔ آخراس خبطی کے پیچھے لگانے کی کیا ضرورت تھی۔

Leave a Comment