’’مرغی کے بچے کی لاش ! ‘‘حمید نے تمسخر آمیز انداز میں ایک ٹھنڈی سانس لی۔
فریدی نے ادھر ادھر دیکھ کر اٹیچی کیس کھولا… اور حمید نے اتنے زور سے قہقہ لگایا کہ بعد میں اسے کھانسی آنے لگی۔
اٹیچی کیس میں ایک اَدھ جلا جو تا رکھا ہوا تھا۔
حمید کھانسیوں کے باوجود بھی ہنستا رہا لیکن فریدی کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے اٹیچی کیس کو بند کر کے دوبارہ مقفل کرتے ہوئے کہا۔ ” کیا میں پاگل ہوں !‘‘
حمیدکی ہنسی رک گئی ۔فریدی کے تیو رماربیٹھنے والے تھے۔ حمید نے سنجیدگی ہی اختیار کر نے میں عافیتسمجھی اور وہ معاملے کو برابر کرنے لگا۔
’’بھئی آپ تو خواہ خواہ ناراض ہو گئے.. . ہر ایک کوہنسی آئے گی اس بات پر ۔ کیا آپ نے اسے سر مخدوم کی قبر سے نکالا ہے!‘‘
’’ نہیں !‘‘
حمید سمجھا تھا کہ فریدی کچھ اور بھی کہے گا لیکن وہ خاموش ہی رہا۔
’’ آخر یہ ہے کیا بلا ؟ ‘‘حمید نے تھوڑی دیر بعد کہا۔
’’میں خود بھی اس پر غور کر رہا ہوں !‘‘
حمید کے ذہن میں پھر ایک چبھتا ہوا جملہ کلبلا یا لیکن فریدی کا بگڑا ہوا موڈ دیکھ کر بک دینے کی ہمت نہیں پڑی۔ آج نہ جانے کیوں فریدی بہت زیادہ چڑ چڑا نظر آرہا تھا۔
’’ کیا آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے؟‘‘
’’نہیں !‘‘ فریدی اسے خونخوار نظروں سے گھورنے لگا۔
’’تو کیا میں چلا جاؤں؟ ‘‘حمید نے پوچھا۔
’’ چلے جاؤ… میں اس وقت خاموش رہنا چاہتا ہوں !‘‘
’’حمید کھڑا ہو گیا۔