’’قطعی ہے… لیکن آپ تو دانش کے باپ نہیں تھے !‘‘ حمید نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ آپ کو قانون کی مدد کرنی چاہئے تھی !‘‘
’’مجھے اس کا علم نہیں تھا !‘‘ شمشاد نے کہا۔ ’’مجھے تو کل رات معلوم ہوا۔ صوفیہ کے غائب ہو جانے کے بعد ناصر ماموں کو اپنی اس حرکت پر بڑا افسوس ہے۔ انہوں نے سارا واقعہ مجھے بتایا ۔ وہ کل رات سے لڑکی کے لئے رو رہے ہیں !‘‘
حمید سوچ میں پڑ گیا۔ حقیقتاًنا صر کی حرکت بالکل قدرتی تھی۔ دنیا کا ہر باپ اپنی اولاد کے عیوب کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے اور پھر دانش پر تو قتل کا شبہ کیا جارہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا شمشاد کوصوفہ کو پتہ ہی دے۔
’’سچ پوچھئے تو مجھے دانش کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں !‘‘ شمشاد نے کہا۔ ’’مگر صوفیہ !ا وہ مفت میں مصائب برداشت کر رہی ہے اور دانش اپنی سزا کو پہنچے ہی گا !‘‘
’’تو کیا آپ کو یقین ہے کہ دانش ہی نے آگ لگائی ہوگی ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ اگر حالات ایسے نہ ہوتے تو ناصر ماموں کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہ تھی !‘‘ شمشاد نے سگریٹ سلگاتےہوئے کہا۔
’’ کیا ناصر صاحب کو بھی اس کا یقین ہے؟‘‘
’’ نہیں ! بظاہر تو نہیں … وہ اس کی بے گناہی کے سلسلے میں سینکڑوں دلائل پیش کرتے ہیں !‘‘
’’ دلائل! … بھلا کس قسم کے ؟ ‘‘ حمید نے اپنے پائپ میں تمبا کو بھرتے ہوئے پوچھا۔ ” سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ دانش نیم فاتر العقل قسم کا آدمی ہے۔
حد سے بڑھی ہوئی شراب نوشی نے اس کے دماغ کی چولیں ہلادی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ نشے کی لہر اُسے اس رات کو بھی تک لائی ہو اور پھر وہ تھوڑی دیر وہاں ٹہل کر واپس چلا گیا ہو۔
اگر اس نے آگ لگائی بھی ہوتی تو اس طرح غائب نہ ہو جاتا۔ دوسرے یا تیسرے دن ضرور واپس آتا کیونکہ پولیس اسے اتفاقی حادثہ قرار ہی دے چکی تھی !‘‘
’’لیکن اب کیا وجہ ہے کہ آپ اسے اتفاقی حادثہ نہیں سمجھتے؟‘‘ حمید نے سوال کیا۔