پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’میں اسے قطعی فضول سمجھتا ہوں کہ یہ بات بار بار دہرائی جائے ۔ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ ماموں جان کی وصیت پاگل پن کا نتیجہ نہیں تھی ، انہیں گھر ہی کے کسی فرد پر شبہ تھا !“

’’اوہ! تو آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں ! ‘‘حمید اُسے معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگا۔

’’ دیکھئے! باتوں کا ڈھکا چھپا انداز مجھے پسند نہیں!‘‘ شمشاد نے حمید کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

’’میں نہیں سمجھا !‘‘

’’آپ لوگ دانش کے پیچھے ہیں !‘‘

’’اور شاید آپ مجھے اس کا موجودہ پتہ ضرور بتائیں گے !‘‘حمید مسکر اکر بولا ۔

’’ مجھے معلوم ہوتا تو میں اتنی دیر خاموش نہ رہتا !‘‘ شمشاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’ناصر ماموں بہر حال باپ ہیں اور ان کی پریشانی یا احتیاط قدرتی چیز ہے چین مجرم کو قانون کےحوالے کر دینا ہر ایک کافرض ہونا چا ہئے !‘‘

’’میں آپ کے خیالات کی قدر کرتا ہوں !‘‘

’’ صوفیہ محض ناصر ماموں کی عاقبت نا اندیشی کی بناپر کہیں فرار ہوگئی ۔ میں اس کے لئے بہت پریشان ہوں ۔

بے چاری یتیم بچی !‘‘

’’تو کیا ناصری نے اُسے قید کیا تھا ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔

’’ اوہ!‘‘شمشاد ہنسنے لگا ۔ ’’ تو آپ اس کا پتہ جانتے ہیں !‘‘

’’ ضروری نہیں … اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ میں نے یہ بات صوفیہ سے معلوم کی ہے !‘‘

’’قیاس … جس کمرے کی کھڑکی سے وہ فرار ہوئی تھی اس کا دروازہ باہر سے مقفل تھا !‘‘

شمشاد کچھ نہ بولا ۔ وہ چند لمحے سر جھکائے بیٹھا رہا پھر اُس نے آہستہ سے کہا۔

’’ اگر آپ ناصر ماموں کی جگہ ہوتے !‘‘

’’ کیا صوفیہ کو دانش کا پتہ معلوم ہے؟‘‘ حمید نے جلدی سے پوچھا۔

’’ نہیں … شاید اس نے واردات کی رات دانش کو کمپاؤنڈ میں دیکھا تھا اور پھر وہ پُر اسرار طریقے پر غائب ہو گیا اور محض اس طرح غائب ہو جانے ہی کی بنا پر ناصر ماموں نہیں چاہتے کہ کا تذکرہ کیا جائے !‘‘

’’ہوں ! ‘‘ حمید نے کرسی کا ہتھا انگلیوں سے کھٹکھٹاتے ہوئے سر ہلایا۔

’’ کیا ناصر ماموں کی یہ حرکت قدرتی امر نہیں ؟“

Leave a Comment