پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ ٹھیک یہی واقعہ جعفری کے ساتھ پیش آیا۔ جب سر مخدوم نے اس سے اس قم کی وصیت کا تذکرہ کیا تو اسے اس کی ذہنی حالت مشتبہ معلوم ہوئی لیکن خود سرمخدوم ہی نے یہ دشواری بھی رفع کردی۔

قبل اس کے کہ جعفری کچھ کہتا سر مخدوم نے اپنے ڈاکٹری معائنے کی تجویز پیش کردی تا کہ بعد کواس کی ذہنی حالت پر شبہ کرکے وصیت غیر قانونی نہ قرار دے دی جائے !‘‘

’’تب تو میں اسے پاگل نہیں کہتا ۔ کیا اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا !‘‘

’’ کیوں نہیں … پورا خاندان تھا جو اس کے ٹکڑوں پر اب بھی پل رہا ہے۔ ہاں البتہ اولاد نہیں تھی ۔ بھائی بھتیجے کئی عدد ہیں !‘‘

’’واقعی کیس دلچسپ ہے!‘‘حمید آہستہ سے بولا۔

’’پورے واقعات سننے کے بعد تمہاری دلچسپی اور زیادہ بڑھ جائے گی !‘‘ فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’غالباً پورے واقعات آپ اس ہفتے کے اندر ہی اندر سنادیں گے!‘‘

’’ ابھی !‘‘ فریدی کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی ۔’’ اور اسی وقت ! سر مخدوم وصیت نامہ مرتب کر نے کے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد جل کر مر گئے۔ ان کی ہدایت تھی کہ اس وصیت کے متعلق ان کی موت کے بعد ہی کسی کو کچھ بتایا جائے !‘‘

’’ہمپ ! ‘‘حمید آہستہ سے بڑبڑایا۔’’ معاملہ پیچیدہ ہے!‘‘

’’اب اس لطیفے کا دوسراٹکڑاسنو!… وصیت کے مطابق جو نکوں کی خبر گیری کے لئے بھی ایک آدمی ہونا چاہئے۔

یعنی ان جونکوں کا سرپرست ! یا دوسرے لفظوں میں ایک ایسا آدمی جو حقیقتاً سر مخدوم کی دولت کا مالک ہو!‘‘

’’ قلعی !‘‘ حمید سر ہلا کر بولا۔ ’’ آپ بیان جاری رکھئے ۔ مجھے کافی مزہ آ رہا ہے!‘‘

’’ابھی اور آئے گا !‘‘ فریدی ہنس پڑا۔

’’مگر یہ تو کوئی لطیفہ نہ ہوا! ‘‘حمید نے ہونٹ سکوڑ کر کہا۔

’’ اور ان جونکوں کا سرپرست کے بنایا گیا ؟‘‘ فریدی حمید کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔’’کیا تم سنناپسندکروگے!‘‘

’’سنا یئے صاحب !‘‘ حمید نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔

’’تو سنو! اُن جونکوں کا سر پرست …یہ ناچیز …یعنی احمد کمال فریدی ہے!‘‘

’’کیا ؟‘‘ حمید کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

’’ہاں… یہ وصیت نامہ کے الفاظ ہیں۔ پندرہ جو نکیں پالی جائیں اور دولت کا حبہ حبہ ان پر صرف کر دیا جائے۔ جائیداد کا منتظم احمد کمال فریدی۔ انسپکٹر آف …سنٹرل سی ،آئی ،ڈی ہوگا …اور انتظامی امور کے سلسلے میں کسی کو جواب دہ نہیں ہو گا ۔ یعنی مختارکل سیاہ کرے یا سفید !‘‘

’’ کیا سر مخدوم آپ کے کوئی عزیز تھے !‘‘ حمید نے بوکھلا کر پوچھا۔

’’قطعی نہیں … شاید ایک یا دو بار ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ بھی محض رسمی طور پر !‘‘

’’ابھی آپ نے سر مخدوم کے دوسرے اعزہ کا تذکرہ کیا تھا !‘‘

’’ ہاں وہ کئی ہیں اور ان کے متعلق بھی وصیت میں کچھ کہا گیا ہے لیکن وہ صرف میری مرضی پر منحصر ہے۔ اگر میں چاہوں گا تو انہیں وہ رقم جوسر مخدوم کی زندگی میں ملتی تھی ،ملتی رہے گی ورنہ نہیں !‘‘

’’ذرا ٹھہریئے!‘‘ حمید کچھ سوچتا ہوا بولا ۔ ’’ ان لوگوں میں کوئی لڑکی بھی ہے!‘‘

’’ہاں شاید تین لڑکیاں ہیں !‘‘ فریدی نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

’’تب وہ انہیں میں سے ایک رہی ہوگی !‘‘حمید بڑ بڑایا۔

’’ کون؟‘‘

’’حمید نے فریدی کو اس لڑکی کے متعلق بتایا جو سرخ رنگ کی ٹوسیٹر پر آئی تھی۔

Leave a Comment