حمید نے وہ رات بے چینی میں گزاری۔ اُسے اس کیس کا کوئی پہلونہیں پریشان کر رہا تھا۔ بات ساری ہونٹوں کی تھی۔ صوفیہ کے ہونٹوں کی۔ دوران گفتگو میں جن کی جنبش بڑی دلآو یز معلوم ہوتی تھی ۔ حمید اس سے رخصت ہوتے وقت بہت اداس ہو گیا تھا۔
دوسری صبح وہ سر مخدوم کی کوٹھی کی طرف جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ نوکر نے ایک کارڈ لا کر اسے دیا۔ کارڈ کے نام پر نظر پڑتے ہی حمید چونک پڑا۔
’’یہ یہاں کیسے ؟‘‘ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ پھر نوکر سے پوچھا’’ تنہا ہے!‘‘
’’جی ہاں !‘‘
’’اچھا میں آرہا ہوں!‘‘
نو کر چلا گیا۔ حمید چند لمحے کھڑا سوچتا رہا پھر وہ ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑا۔ یہاں سر مخدوم کا بھانجا شمشاداس کا انتظار کر رہا تھا۔
شمشاد مضبوط جسم کا ایک لمبا تڑنگا جو ان تھا اور کچھ اس قسم کی مونچھیں رکھتا جیسے دنیا میں صرف اس کو مو نچھیں رکھنے کا حق ہو ۔
حمید اس کے متعلق پہلے بھی کئی بار سوچ چکا تھا اور جو کچھ اس نے سوچا تھا اگر اس کا اظہار کردیتا توکشت وخود تک کی نو بت آجاتی ۔
نہ جانے کیوں بٹی ہوئی مونچھیں دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگتا تھا اس کا خیال تھا کہ اول تو مونچھ رکھنےکی چیز ہی نہیں اور اگر رکھی بھی جا ئے تو اس کی نوکیں اوپر کی طرف اٹھاکر مسخروں کی سی شکل کیوں بنائی جائے۔
’’صوفیہ کہاں ہے؟‘‘ شمشاد نے حمید کو دیکھتے ہی سوال کیا۔
’’حمید کی مسکراہٹ ہونٹوں کے تنفر آمیز کھنچاؤ میں تبدیل ہوگئی ۔ وہ چند لمحےشمشاد کوگھورتا رہا پھر بولا۔
’’ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں نے اسے اغوا کیا ہے؟‘‘
’’ میں کچھ نہیں سمجھتا۔ مجھے اس کا پتہ چاہئے !‘‘
’’اس کے لئے ایک بہترین طریقہ ہے !‘‘ حمید نے نرم لجے میں سنجیدگی سے کہا۔
’’ کیا؟‘‘
’’اخبارات میں مشتہر کر دو ۔ جہاں ہو گی آجائے گی !‘‘
’’ میرا خیال ہے کہ تم جانتے ہو!‘‘
’’ لیکن اس خیال کی وجہ !‘‘ حمید پھر اُسے گھورنے لگا۔
’’اوہو…بس یونہی !‘‘ شمشاد نے کہا اور چڑھی مونچھوں کے باوجود بھی اس کے چہرے پر نرمی کے آثار نظر آنے لگے ۔ حمید اس تغیر کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔
شمشاد چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ میں نے سوچا ممکن ہے آپ کو علم ہو!‘‘
’’ میں پھر آپ سے ایسا سوچنے کی وجہ دریافت کروں گا !‘‘ حمید نے کہا۔
’’قدرتی بات ہے!‘‘ شمشاد نے کھنکار کر کہا۔ ’’ آپ لوگ تو ہمارے خاندان والوں پر کڑی نظریں رکھتے ہوں گے !‘‘
’’ابھی تک تو کوئی ایسی بات نہیں ہوئی !‘‘ حمید بولا ۔