’’میں نہیں سمجھی !‘‘
’’اچھی طرح سمجھتی ہو!‘‘حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ کیا اُن لوگوں نے تمہیں کمرے میں قید نہیں کر دیا تھا!‘‘
ایک بار پھر صوفیہ کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا اس نے کچھ کہنا چاہا پھر کسی سے ہونٹ بھینچ لئے۔
’’وہ لوگ نہیں چاہتے کہ تم ہم سے ملو!‘‘ حمید کہتا رہا۔’’ بات حقیقتاً یہ ہے کہ تم دانش سے متعلق کوئی اہم بات جا نتی ہو !‘‘
’’میرے خدا!‘‘ صوفیہ کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں ۔
’’ ہم دانش کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کر چکے ہیں اور ان کی روشنی میں ہم یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ یہ فعل دانش کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا !‘‘
’’کیوں …نہیں یہ غلط ہے!‘‘ صوفیہ نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’بالکل درست ہے !‘‘ حمید بولا ۔’’ دانش پچیس تیس ہزار کا قرض دار تھا اور ظاہر ہے کہ اتنی رقم نہ دانش کے بس کا روگ تھی اور نہ ناصر کے۔ البتہ سر مخدوم کی موت ناصر کو دولت مند بنا سکتی تھی …
پھر ناصر سے یہ کیسے ہوتا کہ دانش کو قرض خواہوں میں گھرا ہوا دیکھتا !‘‘
صوفیہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر تھوک نگل گئی ۔
’’ہو سکتا ہے کہ تم دانش کی موجودہ قیام گاہ سے واقف ہو!‘‘
’’نہیں ! خدا کی قسم میں نہیں جانتی !‘‘
’’پھر انہوں نے تمہیں کیوں قید کر دیا تھا؟‘‘
صوفیہ کچھ نہ بولی۔ وہ فرش کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’تم سر مخدوم کے قاتل کو بچانے کی کوشش کر رہی ہو!‘‘ حمید نے کہا۔
’’ نہیں یہ غلط ہے ! ‘‘ صوفیہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔