پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ کہہ دو!‘‘

’’تم مجھے اسٹیج کے مسخرے معلوم ہوتے ہو… کیوں ؟‘‘ صوفیہ نے بوڑھے کے لہجے کی نقل اتاری۔

’’تم فی الحالایک بہت بڑی مصیبت میں پڑگئے ہو اور ایک لڑکی تمہاری داڑھی نو چنے کے امکانات پر غور کر رہی ہے۔ لیکن تم برا نہیں مانو گے۔ یہی تمہار ا مستقبل ہے!‘‘

پھر صوفیہ نے جھپٹ کر بوڑھے کی داڑھی پکڑ لی جو روئی کے گالے کی طرح اکھٹرتی چلی آئی۔

بوڑھا اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ لیکن اس کا گریبان صوفیہ کی گرفت میں آچکا تھا۔ صوفیہ نے اُسے آرام کرسی میں دھکیل دیا۔

’’تم لوگ مجھے کہیں بھی چین نہیں لینے دو گے ! ‘‘ صوفیہ ہانپتی ہوئی بولی پھر ہنسنے لگی۔

حمید نے بچے کھچے بال بھی اپنے گالوں سے نوچ لئے اور شریر نظروں سے صوفیہ کی طرف دیکھنے لگا۔

’’تمہاری ہی وجہ سے وہاں سے بھاگی ہوں !‘‘ صوفیہ نے کہا۔

’’ اب زیادہ اُڑنے کی کوشش نہ کرو ۔ بہت زیادہ چالاک نہیں ہو!‘‘حمید مسکرا کر بولا ۔

’’ کیا مطلب !‘‘

’’مطلب صاف ہے۔ تم نے پلنگ کی نواڑ کھولی اسے رسی کی طرح بٹ کر کھڑکی سے نیچے اتریں۔ آخر اس کی کیا ضرورت تھی ۔ دروازے سے نہیں فرار ہو سکتی تھیں اور پھر تم ہماری وجہ سے بھاگی کیوں .. .کیا آؤٹ ہاؤز میں تم نے ہی آگ لگائی تھی !‘‘

صوفیہ کے چہرے پر زردی چھا گئی اس نے جلدی سے کہا۔ ’’ ہر گز نہیں ! یہ تو میں نے تم لوگوں کو پریشان کرنے کے لئے کیا تھا تا کہ تم لوگ کچھ دیر بھاگ دوڑ کرو۔

میں نے تمہیں کھڑکی کے نیچے دیکھ کر ہی یہ حرکت کی تھی ۔ میں یہ بھی جانتی تھی کہ تم میرا تعاقب کر رہے ہو ۔ کہی کیسی رہی ! ‘‘

صوفیہ بے تحاشہ بنے لگی… لیکن حمید یک بیک سنجیدہ ہو گیا ۔

اس نے کہا ۔ ’’ ناصر صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ تمہارا ایڈونچر تھا !‘‘

’’ گھر والے مجھے بچپن ہی سے جانتے ہیں!“

’’میں بھی تم سے اچھی طرح واقف ہوں ! ‘‘حمید بولا ۔ ’’ تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے دشمنوں کو بھی کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچانا چاہتے !‘‘

Leave a Comment