’’ لیکن میرے پاس کوئی گھوڑا نہیں!‘‘ صوفیہ ہنس پڑی۔
’’لڑکی تم اس طرح میرا مضحکہ نہیں اڑ سکتیں ! ‘‘ بوڑھا بگڑ گیا ۔ ’’ میں اپنے وقت کی عظیم ترین ہستی ہوں۔ میں تمہاری پیشانی پر یہ بادیوں کے سائے دیکھ رہا ہوں ۔ کیا آج تم ایک مصیبت میں نہیں پھنسی تھیں۔ کیا اپنی جان پر کھیل کر تم اس سے نہیں نکلیں !‘‘
صوفیہ چونک کر بوڑھے کو گھورنے لگی ۔
’’ اچھا اب میں چلا!‘‘ بوڑھا اُٹھتا ہوا بولا۔
’’ٹھہر یئے !‘‘ صوفیہ نے کہا ۔’’تشریفرکھئے!‘‘
’’بوڑھا بیٹھ گیا۔
’’لیکن!‘‘ صوفیہ بولی ۔’’ آپنے جو کچھکہا ہے اس کا پا مسٹری سے کیاتعلق ہو سکتا ہے ۔ پا مسٹری تو ہا تھ کی لکیروں پر منحصر ہے!‘‘
’’میں صرف پامسٹ ہی نہیں ہوں !‘‘ بوڑھے نے فخریہ انداز میں گردن اونچی کر کے کہا۔ ’’مجھ میں روحانی قو تیں بھیہیں ۔ میں ایک بے سہا را لڑکی کو مصائب میں گھر ا ہوادیکھرہا ہوں۔ ایک لڑکی جو صرف مس ہے ۔ مسنر کسی طرح نہیں ہو سکتی !‘‘
’’آپ بہت کچھ جانتے ہیں !‘‘ صوفیہ نے پرسکون انداز میں کہا۔
’’لوگ مجھے شاہ بلوط کہتے ہیں ! ‘‘ بوڑھے نے فخریہ کہا ۔
’’ شاہ بلوط !‘‘ صوفیہ ہنسنے لگی ۔’’ یہ تو ایک درخت کا نام ہے !‘‘
’’اونچا اور تناور درخت !‘‘ بوڑھے نے سنجیدگی سے کہا۔
’’میرے خیال سے اب آپ کی سانس درست ہوگئی ہوگی صوفیہ سرد لہجے میں بولی۔
’’آں ۔ ہاں ! ‘‘ بوڑھا ہچکچا کر بولا ۔’’ کیا آپ اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں جاننا چاہتیں!‘‘
’’ مجھے افسوس ہے مستقبل سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ویسے آپ کی فیس کیا ہے؟‘‘
’’فیس !‘‘بوڑھا مسکرا کر بولا۔ ’’ کچھ بھی نہیں… فیس میں اس وقت لیتا ہوں جب کوئی خود سے خواہش کرتا ہے اور جن کے ہاتھ میں اپنی مرضی سے دیکھتا ہوں ان سے کوئی فیس نہیں لیتا !‘‘
’’تو آپ یونہی تفریحاً ہاتھ دیکھا کرتے ہیں!‘‘
’’ محض تجربات میں اضافہ کرنے کے لئے !‘‘
صوفیہ نے تمسخر آمیز اندازمیں مسکرا کر اپنیہتھیلی اس کے سامنے کر دی ۔
’’ہاتھ تو بڑا اچھا ہے!‘‘بوڑھے نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔ ’’ اچھا میں ماضی سے شروع کرتا ہوں ، تمہارے والدین بچپن ہی میں انتقال کر گئے تھے کیوں ؟‘‘
’’ٹھیک ہے..!‘‘ صوفیہ سر ہلا کر بولی۔
’’ لیکن پھر بھی تم نے اپنے دن اچھے گزارے۔ اب حال کی طرف آتا ہوں۔ تم آج کل کئی قسم کی الجھنوں کا شکار ہو۔ تمہارے دل پر کسی بات کا بوجھ ہے۔ تم اُسے کہہ ڈالنا چاہتی ہو لیکن کوئی ایسا ہمدرد نہیں ملتا… کیوں ؟‘‘
’’ ٹھیک ہے ! میں ایک بات اُگل دینے کے لئے بری طرح بے تاب ہوں لیکن کس سے کہوں ؟ ‘‘
’’ مجھ سے کہو… ممکن ہے میں تمہاری مدد کر سکوں ! ‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’ کہہ دوں ! ‘‘ صوفیہ بولی۔