پُراسرار وصیت – ابن صفی

7

صوفیہ ہوٹل شیبان کے ایک کمرے میں آرام کرسی پر پڑی کوئی کتاب دیکھ رہی تھی ۔ دفعہ کسی نے باہر سے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ صوفیہ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا اور دستک دینے والے کو ہوٹل کا کوئی ملازم سمجھ کر بولی ’’ آجاؤ۔‘‘

ہینڈل گھوما اور دروازہ کھل گیا۔ لیکن دستک دینے والا اندر آنے کے بجائے دروازے ہی پر کھڑا رہا۔ صوفیہ نے آرام کرسی کے ہتھے پر جھک کر دروازے کی طرف جھانگا اور پھر بوکھلا کر کھڑی ہوگئی ۔ آنے والا نہ تو ہوٹل کا کوئی ویٹرمعلوم ہوتا تھا اور نہ اس کا شناسا۔

ہوٹل کا ویٹر یوں نہیں ہو سکتا تھا کہ اس نے ایک نہایت نفیس قسم کا سوٹ پہن رکھا تھا اور شنا سا اس لئے نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک کافی معمر آدمی تھا اور اس کے چہرے پر جی ۔ بی ۔ ایس ٹائپ کی سفیدداڑھی تھی۔

’’ایک مسز آشا ور ما میری شناسا تھیں ! ‘‘ بوڑھا آدمی بڑبڑایا۔ میں سمجھا تھا شاید وہ رہی ہوں !‘‘

’’ شاید میں بھی آپ کو نہیں جانتی ! ‘‘ صوفیہ نے کہا۔

’’قطعی ! ‘‘ بوڑھے نے ہلکا سا قہقہ لگایا پھر سر ہلا کر بولا ۔ ’’ لیکن میری موجودگی آپ کے لئے تکلیف دہ نہیں ہو سکتی۔ اگر اجازت ہو تو میں دو منٹ بیٹھ کر دَم لے لوں ۔ مجھے جیسے لوگوں کے لئے تیسری منزل پر پہنچنا آسان کام نہیں!‘‘

’’اوہو!‘‘ صوفیہ جلدی سے بولی اور بڑے تکلف سے آرام کرسی کے سرے پر ٹک گئی۔ بوڑھا بیٹھ کر تھوڑی دیر ہنپتا رہا پھر صوفیہ کی طرف دیکھ کر مسکرا یا۔

’’اگر آپ میری شناسا ہو تیں تو میری تھکن کے باوجود مجھے پریشان کر ڈالتیں !‘‘

’’ا وہ…!‘‘ صوفیہ بھی جواباً مسکرائی پھر سنبھل جل کر بولی ۔ ’’ میں نہیں سمجھی کیا آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘

’’میں پامسٹ ہوں ! ‘‘ بوڑھے نے کہا۔

’’ لیکن مجھے پامسٹری سے کوئی دلچسپی نہیں !‘‘ صوفیہ نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ کہا۔ وہ سوچنے لگی تو یہ حضرت اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے اس طرح تعارف حاصل کرتے ہیں ۔ اس نے اکثر سنا تھا کہ شہر کے بعض ہوٹلوں میں اس قسم کے لوگ قیام کرنے والوں کو مستقبل کے حالات بتانے کے بہانے ٹھگ لیا کرتے ہیں۔

’’راجہ صاحب چند نگر کا بھی یہی خیال تھا!‘‘ بوڑھے نے سنجیدگی سے سر ہلا کر کہا۔’’ لیکن پھر نہیں مانناہی پڑا کہ بہت دلچسپ قصہ ہے…

یہ تو آپ جانتی ہی ہوں گی کہ راجہ صاحب ریس کے بڑے شوقین ہیں اور ان کے کئی گھوڑے ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ ان میں میچ لیس بڑا مشہور تھا ۔

پچھلے دنوں میں نے انہیں بتایا کہ اگلی ریس میں میچ لیس کو گولی مار دی جائے گی ۔ انہوں نے میرا مضحکہ اُڑا دیا۔ میں خاموش رہا لیکن کیا ہوا …میچ لیس دوڑا… 

سو فیصد ی توقع تھی کہ اول آئے گا اور وہ تھا بھی سب سے آگے لیکن اچانک ٹھوکر کھائی اور جا کی سمیت منہ کے بل زمین پر رہا۔ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ظاہر ہے اس کے بعد اسے گولی ماردی گئی ۔

اگر راجہ صاحب میرے کہنے پر عمل کرتے اور اسے اس دن ریس میں شامل نہ کرتے تو میچ لیس محفوظ ہوتا …!‘‘

Leave a Comment