’’صوفیہ سے معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ اُسے کس نے اور کیوں قید کیا تھا؟“
’’لیکن واپسی کا ذمہ دار میں نہ ہوں گا !‘‘
’’ کیا مطلب…!‘‘
’’معاف کیجئے گا میں بار برداری کا خچر نہیں ہوں !‘‘
’’پھر کیا ہو؟‘‘
’’بار برداری کا خچر !‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔
’’چلو وقت ضائع نہ کرو!“
’’لیکن میں اس وقت واپس نہ آسکوں گا !‘‘
’’ضروری نہیں! تم صبح آسکتے ہو !‘‘ فریدی نے کہا ۔ ’’ میں دراصل فی الحال یہاں سے ہٹنا نہیں چا ہتاورنہ خود ہی دیکھتا !‘‘
’’اس کے بعد مجھے کیا کرنا ہو گا ؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’ لڑکی کی نگرانی اور حفاظت کے لئے کسی کو مقرر کر کے گھر چلے جانا ! ‘‘
’’ آپ کو اطلاع کس طرح دی جائے ؟‘‘
’’واپسی پر … اس کی جلدی نہیں ۔ فون پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ یہاں دوسیٹ ہیں۔ ایک پردو سرے کی گفتگو بہ آسانی سنی جاسکتی ہے ! ‘‘
’’ میرا خیال ہے کسی نے اس کی کوشش کی تھی !‘‘ حمید بولا ۔
’’ میں آپ کی آواز فون پر بھی پہچان سکتا ہوں ۔ ورنہ پوری رپورٹ کسی اور تک پہنچ چکی ہوتی! “
’’ آواز کس کی تھی؟‘‘
’’انداز نہیں لگا سکا !‘‘
تھوڑی دیر بعد حمید واپسی کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے کیڈی نکالی اور شہر کے راستے پر ہولیا۔ مطلع غبار آلود ہونے کی وجہ سے تاریکی گہری ہوگئی تھی۔
حمید آئندہ کے لئے پروگرام سوچ رہا تھا۔ صوفیہ ایڈونچر کی شائق تھی اس لئے اس کے ساتھ بہترین وقت گزر سکتا تھا۔
دفعتًہ اس نے محسوس کیا کہ ایک کار کافی فاصلے سے اس کا تعاقب کر رہی ہے۔ تعاقب کا خیال اس وقت اور زیادہ پختہ ہو گیا جب حمید نے بھی کیڈی کی رفتار کم کر دی اور اس کے باوجود دونوں کا روں کے فاصلے میں کوئی فرق نہ آیا۔
دوسری طرف بھی شاید فتار کم کر دی گئی تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے بعد بھی حمید کا تعاقب جاری رہا۔
اور پھر حمید نے ہوٹل شیبان کے بجائے کیڈی کا رُخ فریدی کی کوٹھی کی طرف کر دیا۔