’’کیا یہ واقعہ ہی بجائے خود ایک کام کی بات نہیں !‘‘ حمید نے جھلاکر کہا۔
’’خد ا جانے !‘‘ فریدی نے لاپر وائی سے اپنے شانوں کو جنبش دی۔ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا ۔’’ یہاں اسسلسلے میں کافیشور وغلہو چکا ہے ۔ ناصر اس لڑکی کی حرکت پر بُریطرحچراغ پا ہو ر ہا تھا ۔کہہ رہا تھا کہ وہآئے دن اسی طرح کی حرکتیں کیا کرتی ہے !‘‘
’’تو پھر شاید اس کا بھی دماغ خراب ہے ! ‘‘حمید نے کہا۔
’’ کیوں ؟‘‘
’’ارے اس نے اپنی گاڑی سڑک کے کنارے چھوڑ دی ہے۔ شاید اُسے اب ٹریفک پولیس کے کسی آدمی نے کوتوالی بھی پہنچا دیا ہو لیکن کیا ہم اسے بھی پاگل پن سمجھیں گے کہ وہ شیبان ہوٹل میں مسنر آشنا ورما کے نام سے مقیم ہے۔ آخر کیوں ؟‘‘
فریدی کچھ نہ بولا ۔ حمید تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر اس نے کہا ۔
’’بعض لوگ خود نمائی کے لئے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ دوسروں کو حیرت میں ڈالنے کے لئے ۔ اگر صوفیہ کا بھی یہی مقصد ہوتا تو پہلی بار مجھے دیکھ کر کھڑ کی کیوں بند کر لیتی۔ پھر جب اس نے اطمینان کر لیا کہ میں جاچکا ہوں تو وہ چوروں کی طرح نیچے اتری …کیوں ؟ کیا جواب ہے آپ کے پاس !‘‘
’’ جواب !‘‘ فریدی کچھ سوچتا ہو امسکر ایا۔ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کمرہ با ہر سے مقفلتھا!‘‘
’’کون سا کمر ہ؟‘‘
’’وہی جس کی کھڑکی سے وہ زمین تک پہنچی تھی !‘‘
’’ آپ کو کیسے علم ہوا؟‘‘
’’ جب وہ لوگ کھڑکی کے نیچے کھڑے شور کر رہے تھے ۔ میں اوپری منزل پر چلا گیا۔ ناصر کو چاہئے تھا کہ غل مچانے سے پہلے کمرے کا تالا کھول لیتا !‘‘
’’ تو کیا اس نے اُسے قید کر رکھا تھا ؟‘‘
’’اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے !‘‘ فریدی سگار کیس سے سگار نکالتا ہوا بولا ۔
’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ صوفیہ کوئی اہم بات جانتی ہے !‘‘
’’ہو سکتا ہے!‘‘
’’آخر آپ خلاف معمول اتنے غیر یقینی انداز میں کیوں گفتگو کر رہے ہیں !‘‘ حمید جھنجھلا کر بولا۔
’’ بہتیرے معاملات خود میرے ذہن میں ابھی تک صاف نہیں ہیں… اور پھر میں غیب داں تو ہوں نہیں کہ پیشین گوئیاں شروع کردوں !‘‘
’’کون سے معاملات آپ کے ذہن میں صاف نہیں !‘‘
’’ جتنے بھی ہیں !‘‘
’’شاید پہلی بار آپ کی زبان سے اس قسم کی گفتگوسن رہا ہوں !‘‘
’’کیا پہلے بھی کبھی اس قسم کے کیس سے سابقہ پڑا تھا! ‘‘ فریدی نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
حمید پائپ میں تمبا کو بھرنے لگا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اچانک اس نے کہا۔
’’رات والے آدمی کے لئے آپ نے کیا کیا!‘‘
’’ وہی تو مجھے الجھن میں ڈالے ہوئے ہے!‘‘
’’الجھن میں کیوں ؟‘‘
’’شاید اس وقت تمہارا ذہن سوچنے کے لئے موزوں نہیں ہے !‘‘ فریدی نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’ وہ کبھی نہیں ہوتا ۔ علاوہ اُن مواقع کے جب معدہ ٹھیک نہ ہو!‘‘
’’تم اس لڑکی سے ملے کیوں نہیں ؟‘‘ فریدی نے گفتگو کا موضوع بدل دیا۔
’’میں فون پر آپ سے اسی کے متعلق پوچھنا چاہتا تھا !‘‘
’’کب تک انگلی پکڑ کر چلتے رہو گے؟‘‘
’’جب تک جوان نہ ہو جاؤں ! ‘‘حمید جھلّا کر بولا۔
’’ جس دن میرا ہاتھ اٹھ گیا جو ان بھی ہو جاؤ گے!‘‘
’’اور یہ شعر پڑھتا ہوا جوان ہوں گا !‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔
انگڑائی لینے پائے نہ تھے وہ اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
’’مت بکواس کرو!‘‘ فریدی دانت پیس کر اُسے مُکّا دکھاتا ہوا بولا ۔
حمید پائپ کو دانتوں میں دبا کر جیب میں دیا سلائی ٹٹولنے لگا۔
’’تم ابھی جاؤ!‘‘ فریدی نے کہا۔