جلدہی اُسے دوسری طرف سے فریدی کی آواز سنائی دی۔
’’کہاں ہو تم ؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔
’’پبک ٹیلی فونبوتھ نمبر ستا ئیں میں ۔آپ کے لئے ایک دلچسپ اطلاع ہے!‘‘
’’میں فون پر کوئی اطلاع سننا پسند نہیں کروں گا …سمجھے …تم کب واپس آؤ گے!‘‘
’’خیر نہ سنئے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’ لیکن میں اپنےمحکمے کے کسی آدمی سے کوئی مدد لے سکتا ہوں یا نہیں!‘‘
’’کیا موجود ہمعا ملات کے متعلق!‘‘
’’جی ہاں…!‘‘
’’کس سلسلے میں !‘‘
’’محض نگرانی کے لئے!‘‘
’’اجازت ہے ۔جلدواپس آنے کی کوشش کرنا!‘‘
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد حمید نے بھی ریسیو رہک سے لگا دیالیکن وہ بوتھ سے باہر نہیں نکلا۔
وہ چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر اس نے دوبارہ کسی کے نمبر ڈائل کئے اور اب وہ شاید اپنے محکمے کے کسی آدمی سے گفتگو کر رہا تھا ۔اس نے اُسے شیبان ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ایک عورت مسنر آشاور ما کی نگرا نی کرنے کو کہا تھا۔
بوتھ سے نکل کر وہ کیڈی میں آبیٹھا۔اب وہ صوفیہ کی طرف سے مطمئن ہو چکا تھا۔ اس کی واپسی بڑی پُر سکون تھی اور وہ راستے میں سوچرہا تھا کہ آخر فریدی نے فون پر گفتگو کیوں نہیں کی۔
اچانک اُسے یاد آیا کہ سر مخدوم کی کوٹھیمیں دو فون تھے۔
ایک سر مخدوم کے آفس میں تھا اور دوسرا لائبریری میں ۔ان میں سے کسی ایک پر دونوں کی گفتگو صاف سنی جا سکتی تھی۔ ہو سکتا ہے فریدینے اسی خیال کے تحت فون پر بات کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔
کو ٹھی میں فریدی اس کا منتظر تھا۔ حمید نے جاتے ہی اپنا کا ر نامہ شروع کر دیا ۔ فریدی اتنی لا پر وائی سے سن رہا تھا جیسے حمید یو نہی تضیع اوقات کر تا رہاہو۔
گفتگو کے اختتامپر اس نے مسکرا کر کہا ۔’’ میں سمجھا تھا شاید تم نے اس سے کوئیکام کی باتمعلومکی ہے !‘‘