حمید فر یدی کو توجہ اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا کیو نکہ اس کے ہو نٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی ۔
’’کو ئی نئی مصیبت ؟‘‘ حمید نے پو چھا ۔
’’ایک دلچسپ کیس حمید صاحب !‘‘ فر یدی سگا ر کیس سے سگا ر نکا لتے ہو ئے بولا ۔
حمید کی سانس رک گئی۔موسم بہا ر میں کسی کیس کی اطلاع اس کے لئے ایسی ہی تھی جیسے کسی شاعر کے ہا تھ میں ار تھمیٹک کا پر چہ پکڑ ادیا جا ئے ۔
’’مرے سے پہلے تم کس قسم کی وصیت کر نا پسند کروگے !‘‘ فر یدی نے حمید کی آنکھو ں میں دیکھتے ہو ئے سنجیدگی سے پو چھا۔
’’کیایہ کو ئی ایسا ہی کیس ہے ؟‘‘ حمید نےبھی سنجیدگی ہی اختیار کر لی ۔
’’کیا تم یہ وصیت کر و گے کہ تمہا ری دولت چند جو نکو ں کر دی جا ئے !‘‘
’’مذاق کچھ جچا نہیں!‘‘ حمید بُرا سا منہ کر بولا ۔’’بلکہ یہ مذاق ہی نہیں!‘‘
’’مذاق نہیں ،میں سنجیدگی سے گفتگو کر رہا ہو ں !‘‘ فر یدی نے سگا ر سلگاکر کہا۔’’شہر کے ایک متموّ آدمی نے یہ وصیت کی ہے کہ اس کی دولت چند ج ونکوں پر صرف کی جا ئے!‘‘
’’اوہ …!‘‘ حمید فر یدی کو غور سے دیکھتا ہو ا بولا ۔’’تو یہ اسی وصیت کے متعلق گفتگو ہو رہی تھی !‘‘
’’ہا ں…! کیا تم اسے نہیں جا نتے !‘‘
’’نہیں۔لیکن کچھ کچھ یا د پڑتا ہے کہ اُسے کہیں دیکھا ضرور ہے !‘‘
’’سر مخدوم سے واقف ہو !‘‘ فر یدی نے پوچھا ۔
’’فر مخدوم !…اوہ …وہی تو نہیں جو چند روز پہلے جل کر مراتھا !‘‘
’’ٹھیک سمجھے وہی !‘‘ فر یدی سر ہلا کر بولا ۔
’’تب تو معاملہ صاف ہے ۔اس نے خود ہی اپنے مکان میں آگ لگا ئی ہو گی !‘‘
’’کیو ں ؟‘‘
’’کیو ں کا سوال ہی نہیں پیدا ہو تا !‘‘ حمید نے کہا ۔’’اس قسم کی وصیت کی مو جو دگی میں یہ مسئلہ بالکل ہی صاف ہو جاتا ہے ۔ایک بچہ بھی یہی کہے گا کہ اس کا دماغ خراب تھا !‘‘
’’بچہ سو فیصدی ہی کہہ رہا ہے !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ لیکن فرزند ابھی میں شہر کے سر بر آوردہ ڈاکٹروں کا سر ٹیفکیٹ دیکھ رہا تھا جس میں سب نے ایک قلم یہ رائے ظاہر کی ہے کہ سر مخدوم قطعی صحیح الد ماغ ہیں !‘‘
’’ ڈاکٹروں کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی !‘‘
’’ اوہ تم تو اب واقعی بچوں ہی کی سی باتیں کرنے لگے ہو!‘‘ فریدی سنجید گی سے بولا ۔’’ اگر تمہارے پاس کوئی آدمی اس قسم کی وصیت محفوظ کرانے کے لئے آئے تو کیا تم اُسے صحیح الدماغ سمجھو گے !‘‘
حمید نے نفی میں سر ہلا دیا۔