پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’تھوڑی سی تکلیف دوں گا!‘‘ حمید بولا ۔’’ پرسوں سے کل تک کے قیام کرنے والوں کے دستخط دیکھنا چاہتاہو ں!‘‘

’’کوئی خاص بات !‘‘

’’ جی ہاں ! ہمیں ایک مشتبہ آدمی کی تلاش ہے جو شہر کے کسی ہوٹل میں مقیم ہے!‘‘

منیجر نے رجسٹر اس کی طرف بڑھا دیا۔ رجسڑ کھلا ہوا تھا۔ شاید وہ صوفیہ کے دستخط کرنے کے بعد سے اب تک بند نہیں کیا گیا تھا۔ حمید کی نظر سب سے پہلے آج کے آخری نام پر پڑی جو صوفیہ کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد سے اب تک اور کوئی قیام کرنے والا آیا ہی نہیں تھا۔

صوفیہ نے اپنا نام مسز آشاور ما لکھا تھا اور دستخط بھی اس نام کے کئے تھے ۔ حمید نے جلدی سے وہ صفحہ الٹ کر دو دن قبل کی آمد و رفت کا صفحہ کھولا۔ اس کا مقصد تو حل ہو ہی چکا تھا اب اُسے صرف مینجر کو دکھانے کے لئے پچھلے ناموں پر نظر ڈالنی پڑی تھی۔

’’ شکریہ !‘‘ حمید نے تھوڑی دیر بعد رجسٹر بند کرتے ہوئے کہا۔

’’ کیا مل گیا !‘‘ منیجر نے پوچھا۔

’’نہیں ! یہاں نہیں ہے!‘‘

پھر منیجر کے چہرے سے فکر کے بادل چھٹ گئے اور اس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اسے رخصت کیا۔

حمید نے باہر آ کر ایک پبلک ٹیلیفون بوتھ کا رخ کیا۔ اسے توقع تھی کہ فریدی سر مخدوم کی کوٹھی ہی میں ہوگا کیونکہ کیڈی لے کر تو وہ چلا آیا تھا اور اس طرف ٹیکسیاں بھی شاذ و نادر ہی جاتی تھیں ۔ اس نے نمبر ڈائل کئے … 

کسی نے دوسری طرف سے کال ریسیو کی۔ اس نے فریدی کا نام لیا پھر اسے کچھ دیر تک انتظار کرنا پڑا۔

’’ہیلو! کون ہے؟ ‘‘دوسری طرف سے آواز آئی۔

’’میں حمید بول رہا ہوں لیکن میں فر یدی صاحب سے گفتگو کر ناچاہتا ہوں !‘‘

’’اوہ معاف کیجئے گا!‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی ۔’’ نوکر کو غلط فہمی ہو ئی تھی …ٹھہریئے !‘‘

حمیدکے ہو نٹو ں پر شرارت آمیزمسکراہٹ پھیل گئی۔ اگر وہ جلدی میں ہوتا اور اس نے آواز کے فرق کونہمحسوس کیا ہوتا تو اس کی گفتگوفر یدی کے بجائے کسی اور نے سنی ہوتی۔

Leave a Comment