پُراسرار وصیت – ابن صفی

پھر حمید نے بڑی تیزی سے سڑک پار کی اور اس گلی میں پہنچا جہاں اس نے کیڈی کھڑی کی تھی ۔ دوسرے لمحےکیڈی بھی سڑک پر تھی۔

حمید سوچ رہا تھا کہ آخر اس نے اپنی کار کی موجودگی میں ٹیکسی کیوں کی ؟ …کیا وہ سچ مچ فرار ہورہی ہے۔ آخر کیوں ؟ کیا اس کا بھی اس کیس سے تعلق ہے۔ کوئی ایسا تعلق جس کی بنا پر اُسے فرار ہونا پڑے۔

پھر اس کے خیالات کی رو فرار کے طریقے کی طرف بہک گئی ۔ آخر اس طرح فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک پچیس فیٹ بلند کھڑکی سے بٹی ہوئی نواڑ کے ذریعہ چوروں کی طرح اترنا

 …اور پھر گیراج میں داخل ہو کر علیالا علاج کا ر نکالنا جیسے اس کے بعد اسے دیکھ لئے جانے کی پروا نہیںتھی …او ر اب وہ اس کار کو بھی سڑک کے کنارے اس طرح چھوڑ کر فرار ہو رہی تھی جیسے وہکارچوری کی رہی ہو۔

تھی جیسے وہ کار چوری کی رہی ہو۔

صوفیہ کی ٹیکسی شیبان کی کمپاؤ نڈ میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ متوسط درجے کا ایک اقامتی ہوٹل تھا ۔ پورچ میں کھڑے ہوئے ایک پورٹر نے صوفیہ کا سوٹ کیس اٹھایا اور اندر جانے کے لئے اس کی رہنمائی کرنے لگا۔

حمید نے بھی کمپاؤنڈ ی میں کیڈی روک دی تھی۔ لیکن اندری بیٹھا اسے پورٹر کے ساتھ جاتے دیکھتا رہا۔

یقیناً وہ یہاں قیام ہی کرنے کے لئے آئی تھی۔

کچھ دیر بعد حمید ہوٹل کے منیجر کے کمرے میں تھا۔ اس نے اپنا ملاقاتی کارڈ نکال کر مینجر کے سامنے رکھ دیا۔

’’ اوہ ! فرمائیے !‘‘ منیجر کچھ مضطرب سا نظر آنے لگا۔

Leave a Comment