پُراسرار وصیت – ابن صفی

کچھ سوچتا رہا پھر وہ بھی گیراج ہی کی طرف چلنے لگا۔

صوفیہ گیراج سے سرخ رنگ کی ٹوسیٹر نکال چکی تھی ۔ وہ اسے کافی تیز رفتاری سے چلاتی ہوئی پھاٹک سے گزر گئی ۔

فریدی کی کیڈی دو پہر سے اب تک پورچ ہی میں کھڑی رہی تھی۔ حمید کو اس تک پہنچنے کے لئے کافی تیز دوڑ پڑا۔ اتفاق سے وہاں اور کوئی موجود نہیں تھا اور نہ وہ اس کی اس حرکت کو پاگل پن پر محمول کرتا ۔

سڑک پر آ کر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کا نشان نہ ملا ۔ جس رفتار سے صوفیہ اسے باہر لائی تھی اگر وہی رفتار سڑک پر بھی برقرار رکھی ہو گی تب بھی وہ نہ جانے کہاں پہنچی ہوگی ۔

حمید نے گیئر بدلے اور کیڈی فراٹے بھرنے لگی ۔ دھند کا چھلنے لگا تھالیکن ابھی اتنی روشنی باقی تھی کہ وہ سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کو دور ہی سے دیکھ سکتا تھا۔ وہ برابر رفتار تیز کرتا رہا۔

آخر شہر پہنچتے پہنچتے اس نے سرخ رنگ کی ٹوسیٹر کو جاہی لیا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔

ایک جگہ صوفیہ کی گاڑی رک گئی ۔ حمید نے صوفیہ کو اتر کر ملبوسات کی ایک بڑی دکان میں گھستے دیکھا۔ وہ اپنی کیڈی کو بیک کر کے ایک گلی میں لایا اور انجن بند کر کے اس نے اسے وہیں چھوڑ دیا۔

ٹوسیٹر اب بھی وہیں کھڑی تھی جہاں چھوڑی گئی تھی ۔ حمید سڑک کے دوسرے کنارے سے ملبوسات کی دکان کی نگرانی کرتا رہا۔ شاید میں منٹ بعد صوفیہ بر آمد ہوئی اور حمید کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔

اس کے جسم پر اب قمیض اور پتلون کے بجائے ایک نہایت نفیس قسم کی ساڑی تھی اور اس نے اپنی داہنی بغل میں ایک چھوٹا سا بنڈل دبارکھا تھا۔ وہ دکان سے نکل کرفٹ پاتھ پر چلنے لگی۔

حمید کافی فاصلے سے اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ کچھ دور چل کر صوفیہ پھر ایک دکان میں گھس گئی جہاں چمڑے کا سامان فروخت ہوتا تھا۔ حمید کو بھی رک جانا پڑا لیکن اس بار بھی وہ دکان کے اندر نہیں گیا۔

صوفیہ تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں چمڑے کا ایک سوٹ کیس لٹکائے ہوئے باہر نکلی ۔ لیکن یہ بات اتنی حیرت انگیز نہیں تھی جتنی کہ اس کی دوسری حرکت ہو سکتی تھی ۔ اس نے ایک گزرتی ہوئی ٹیکسی کو روکنے کا اشارہ کیا۔

Leave a Comment